Wednesday, 12 October 2016

Dat jaw tum IMAM Hussain ki Tarah written by Qayyum nizami

سیّد امام حسینؓ کی ولادت مبارک 5شعبان 4 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔ رسول اللہ ؐنے آپکے کان میں اذان دی (مستدرک حاکم) منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالااور آپ کیلئے دعا فرمائی۔ آپؐ نے ساتویں دن اپنے نواسے کا نام حسینؓ رکھا۔ عقیقہ کیا اور سر کے بال منڈوا کر انکے برابر چاندی صدقہ کی۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جبرائیل ؑ نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسینؓ میرے بعد ’’ارض طف‘‘ میں شہید کیا جائیگا۔ جبرائیل ؑ نے مجھے اس مقام کی مٹی لاکر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (حسینؓ) کی شہادت گاہ بنے گی۔[طبرانی] ایک روایت کے مطابق ایک بار رسول اللہؐ نے سیّدنا حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو ان کی والدہ سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسینؓ کے رونے کی آواز مجھے غمگین کرتی ہے۔ [طبرانی] حضرت حسینؓ رسول اللہؐ کے محبوب نواسے تھے ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ سب مسلمانوں کیلئے محبوب اور محترم ہیں۔
سیّدنا حسینؓ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے، راستے میں غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے انہوں نے کہا حضرت حسینؓ ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔ آپ گھوڑے سے اُترے اور غرباء کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس موقع پر فرمایا اللہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سیّدنا حسینؓ نے ان غرباء کو اپنی جانب سے بھی کھانے کی دعوت دی۔[الجویرۃ] حضرت حسنؓ کی ولادت کے بعد معاویہؓ نے خلفائے راشدین کے برعکس خلافت کو وراثت بنا دیا اور اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ بنالیا اور لوگوں کو 49 ہجری میں یزید کی بیعت کیلئے بلایا، مسلمانوں نے اس فیصلے کو ناپسند کیا اور سخت اختلاف کا اظہار کیا۔ لوگوں کو یزید کے مشاغل کا علم تھا، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اگرچہ یزید میں سخاوت، مروت، فصاحت بیانی اور شعر گوئی جیسی خوبیاں بھی تھیں مگر وہ شراب نوشی کرتا۔ ناچ گانے میں دلچسپی لیتا، اس نے اپنے محل میں ناچ گانے والیاں اور کتے رکھے ہوئے تھے اسکے بعض اعمال فاسقانہ تھے۔[البدایہ و النہایہ]
حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا۔ یزید نے حضرت حسینؓ پر بیعت کیلئے دبائو ڈالا مگر انہوں نے دبائو قبول کرنے سے انکار کیا۔ آپ نے جو عزم اختیار کیا اس پر ثابت قدم رہے اور مکہ تشریف لے گئے۔ حضرت امام حسینؓ کے نام عراق سے سینکڑوں خطوط آئے جن میں تحریر تھا کہ آپکے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہیں آپ جلد عراق آجائیں تاکہ لوگ آپ سے بیعت لیں۔ حضرت حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے عراق بھیجا۔ کوفہ کے لوگ مسلم بن عقیلؓ سے بڑے اخلاق سے پیش آئے اور قسم کھائی کہ اگر حضرت حسین ؓ کوفہ آجائیں تو وہ دل و جان سے آپکی مدد کرینگے۔ ایک روایت کیمطابق 18 ہزار لوگوں نے مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مسلم بن عقیلؓ نے حضرت حسینؓ کو خط لکھا کہ حالات سازگار ہیں، وہ کوفہ تشریف لے آئیں۔ خط ملنے کے بعد حضرت حسینؓ کوفہ روانہ ہوئے۔ یزید نے کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو معزول کردیا کیونکہ وہ حضرت حسینؓ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ عبداللہ ابن زیاد سمیّہ کو کوفے کا گورنر مقرر کیا گیا۔[البدایہ و النہایہ]
ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حضرت حسینؓ کے پاس بھیجا اور ان کو یزید کی بیعت کا مشورہ دیا۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے واپس جانے دو، یزید کے پاس لے چلو تاکہ اس سے مکالمہ کروں اگر دونوں شرطیں منظور نہ ہوں تو ترکوں کی جانب جانے دو تاکہ ان کیخلاف جہاد کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کروں۔ حضرت حسینؓ کا پیغام ابن زیاد کو پہنچایا گیا مگر اس نے اپنے ساتھیوں کے مشورے کے بعد تینوں شرطیں مسترد کردیں اور بیعت کا مطالبہ کیا۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حضرت حسینؓ اور انکے ساتھیوں کو پانی لینے سے روک دیا جائے۔[البدایہ و النہایہ]
حضرت حسینؓ نے جب دیکھا کہ وہ محاصرے میں آگئے ہیں اور ابن زیاد کے ارادے درست نہیں ہیں تو آپ نے نویں محرم کو چراغ گل کردئیے اور خطبہ دیا اور اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء سے کہا کہ یزید کو صرف ان سے دشمنی ہے لہٰذا جو لوگ واپس جانا چاہیں وہ چلے جائیں۔ قافلے میں شامل سب لوگوں نے واپس جانے سے انکار کردیا اور آخری دم تک حضرت امام حسینؓ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔[البدایہ و النہایہ]
سیّدنا حسینؓ نے اندھیرا اس لیے کیا تاکہ جو لوگ واپس جانا چاہیں ان کو ندامت نہ ہو۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ بہتر آدمی تھے۔ کربلا کے میدان میں انسانی تاریخ کا المناک سانحہ پیش آیا۔ دسویں محرم عاشورہ کے روز حضرت امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قرآن ہاتھ میں لیکر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہؐ کے نواسے اور امیرالمومنین حضرت علیؓ کے فرزند ہیں۔ یزیدی فوج پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا اور شمر نے قافلہ حسینؓ پر حملہ کردیا۔ حضرت امام حسینؓ کے رفقاء باری باری لڑتے ہوئے شہید ہوتے گئے اور آخر کار حضرت امام حسینؓ کو بھی محرم کے مہینے 61 ہجری یوم عاشور (جمعہ) کو شہید کردیا گیا اس وقت آپ کی عمر 54 سال تھی۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
معاویہ اپنے بیٹے یزید کی بادشاہت کو مستحکم کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے حضور ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کی بجائے ملوکیت کے راستے پر چلنا شروع کر دیا ۔ البتہ معاویہ نے یزید کو نصیحت کی کہ حسینؓ اگر بیعت سے انکار کریں تو درگزر سے کام لینا مگر تحمل برداشت رواداری اسکی فطرت کیخلاف تھی۔ اس نے وہ ظلم و ستم کئے جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ؎؎ملتی ۔زہیر ایک سنی تھا۔ اس نے امام حسین ؓ کے پیغام کو سنا تو بیوی بچوں کو چھوڑ کر قافلہ حسینؓ میں شامل ہو گیا۔ کربلا کے میدان میں جب حسینؓ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی تو زہیر حسینؓ کی ڈھال بن گئے اور شہید ہو گئے۔ اہل سنت کے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا۔ ’’جس نے بھی حسینؓ کو شہید کیا انکے قتل میں مدد کی یا انکے قتل سے راضی ہوا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ اللہ تعالیٰ نہ اُنکے عذاب کو دور کریگا اور نہ اس کا عوض قبول کریگا‘‘۔[فتاویٰ ابن تیمیہ: جلد 4 صفحہ 487]
شہادت حسینؓ کا سبق یہ ہے کہ نیکی کی تبلیغ کرنا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ جھوٹ اور سچ کی جنگ میں افرادی قلت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سچ کے علم بردار اگر تعداد میں کم بھی ہوں تو جھوٹ کا مقابلہ ان کا فرض ہے۔
جنگ بدر اور جنگ کربلا میں یہ بھی ایک قدر مشترک ہے کہ تعداد کی کمی حق کے راستے میں حائل نہ ہوئی۔ حضرت امام حسینؓ کا یزید کیخلاف جہاد مذہبی تعصب یا فرقہ واریت کی بناء پر نہ تھا بلکہ اسلام کے تحفظ کیلئے تھا۔ مسلمان کردار کے بحران سے گزررہے ہیں۔ اللہ کے پیارے نبیؐ خلفائے راشدین اور امام حسینؓ نے عملی کردار کے جو روشن نمونے پیش کیے ہم ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں مگر اپنے پسندیدہ خلفاء صحابہ اور اماموں کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ …؎
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جائو تم حسینؓ کے انکار کی طرح

No comments:

Post a Comment

Back to Top