Monday 17 October 2016

Admiral asaf sundhela ky mugaven ka safa written by Asad Ullah Ghalib

ایڈ مرل آصف سندھیلا کےمعاون کا سفر

میں پاکستانی بحریہ کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، اس کے ایک نیک نام سربراہ ایڈمرل احسن کا نام سُنا تھا، وہ مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے مگر نیک نامی کے ساتھ مستعفی ہو کر واپس آ گئے۔
میرے ایک دیرینہ دوست پروفیسر مسرور کیفی اکثر ایڈمرل آصف سندھیلا کا ذکر کرتے ہیں جو کیڈٹ کالج کوہاٹ میں ان کے شاگرد تھے۔ کیفی صاحب کے شاگرد پاکستان ا ور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور تاجدار عالم ہیں، حسن نواز اور حسین نواز بھی ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ ایچی سن کالج میں وہ پڑھا رہے تھے تو ان سے تعارف ہوا جو برادرانہ رشتے میں بدل گیا، میں نے سوچا کہ ان کے توسط سے ایڈمرل صاحب سے ملاقات کی سبیل نکل آئے۔ ایک اور دوست عبدالوحید چودھری بھی مدد کو
آئے، وہ گل شاہ فورم کے مدارالمہام ہیں جس کی نشست تو ماہانہ بنیاد پر ہونی چاہئے مگر چودھری صاحب ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں، اس لئے چند اجلاس ہی ہو سکے، ان میں سے ایک اجلاس تو بہت یادگار رہے گا جب انہوں نے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی کے ساتھ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا، اس میں بلوچستان کی کئی گتھیوں کو سلجھانے میںمدد ملی۔ ایڈمرل صاحب کے ساتھ نشست برپا کرنے کے لئے بھی انہوں نے اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا۔ یہ نشست کئی اعتبار سے یادگار بن گئی۔
پیاس تو یہ تھی کہ پاک بحریہ کے بارے میں معلومات حاصل کریں مگر ایڈمرل صاحب نے شروع ہی میں معذرت کی کہ دو سال قبل جب انہوں نے اپنا منصب چھوڑا تو پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا بلکہ بہت پیچھے مُڑ کر دیکھا تو انہیں اپنے گائوں کی وہی خستگی نظر آئی جس کو بچپن میں انہوں نے خیرباد کہا تھا۔ ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ان کے ذہن میں لہرایا کہ انہوں نے بحیرہ عرب کے پانیوں کی بے باک موجوں کو تو تسخیر کر لیا مگر یہ کیا کہ ان کا اپنا گائوں وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے، کی مثال بنا ہوا ہے۔ گائوں کے رشتے دار ان کے پاس اپنے بچوں کی نوکریوں کے لے آتے رہے مگر وہ ان کی کیا مدد کرتے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان بچوں کو ایسے ہُنر سے آراستہ کیا جائے جس کے بعد انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت محسوس نہ ہو۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ’’معاون‘‘ جیسا مثالی فلاحی ادارہ تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے گائوں کے سکول کی سرپرستی کے لئے پنجاب حکومت سے درخواست کی، فائلوں کے سرخ فیتوں کی طغیانی سے لڑتے بھڑتے وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے، وہی سکول جس میں بچے تو تھے مگر استاد نہیں تھے اور جو استاد تھے وہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں تھے، سکول میں گرمی سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا، اسکی چار دیواری تک نہ تھی اور شدید گرمی میں جب بچے پیاس سے بلکتے ہیں تو پینے کو پانی دستیاب نہ تھا، سو سب سے پہلے پانی کا انتظام کیا گیا، پھر اللہ نے مدد کی اور اسی سکول میں ووکیشنل ٹریننگ کی کلاسیں شروع ہو گئیں۔ بچیوں کو اس طرف راغب کرنا مشکل تھا کہ شام کو وہ گھر سے نکل نہیں سکتی تھیں اور ان کے دیہات دور دور تھے، مگر ایڈمرل صاحب نے ہمت نہ ہاری، لوگوں کے اندر جذبہ پیدا کیا، کئی بچیاں شام کو پندرہ میل سفر کر کے سکول آتی جاتی تھیں، اب ان کے لئے سواری کا بندوبست بھی کر دیا گیا جس سے زیر تربیت طالب علموں کی تعداد اچانک دُگنی ہو گئی۔ تنگِ دامانی کا علاج یہ تھا کہ مزید سکولوں میں ایسے مراکز قائم کئے جائیں، سرخ فیتے کی لعنت سے بچنے کے لئے ایڈمرل صاحب نے براہ راست پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے رابطہ کیا۔ وہ تو جیسے اس نیک کام کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار بیٹھے تھے، کہنے لگے جتنے مرضی سکول ایڈاپٹ کر لیجئے، اس طرح چراغ سے چراغ جلتا چلا گیا اور اب سکولوں کا سلسلہ یونین کونسل کی حدوں سے باہر نکل گیا ہے اور تحصیل اور ضلع کی سطح کو چُھو رہا ہے۔
قارئین! ایک بہت بڑے انسان نے ایک چھوٹا سا کام کیوں شروع کیا؟ معاف کیجئے، یہ چھوٹا کام نہیں، بنیادی کام ہے، یہ پاکستان کی بنیاد کو مضبوط بنانے کی طرف پہلا قدم ہے اور اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے ارد گرد کو ٹھیک کرنے کی تگ و دو میں لگ جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے پیارا وطن قوموں کی برادری میں سرفراز نظر آنے لگے گا۔
معاون تنظیم کسی سے چندہ نہیں مانگتی، وسائل بھی نہیں مانگتی صرف حرکت اور جذبہ اور لگن مانگتی ہے اور ہر اس شخص یا ادارے کا ہاتھ بٹانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے جو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئے کوشش کرنا چاہتا ہے۔ ایڈمرل صاحب نے ایک ماڈل سیٹ کر دیا، اب اس کی نقل کرنی ہے، ا س نقل کے لئے عقل ایڈمرل صاحب کی استعمال کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر فرخ حسنین معاون کے معاون کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ اپنے گائوں کے سکول کی حالت بھی بدلنا چاہتے ہیں مگر علاقے کی افسر شاہی اس کی حالت بدلنے میں آڑے آ رہی ہے، اگر یہ سطور چیف منسٹر پنجاب کی نظر سے گزریں تو وہ ایک بار ضرور اس سوال پر غور کریں کہ ان کے زیر نگیں ہر ضلع میں کم و بیش پینتیس محکمے ہیں جن کا عملہ بھی موجود ہے، اس عملے کو تنخواہ بھی ملتی ہے اور وہ دیگر مراعات بھی اینٹھتا ہے، محکمے کو فنڈز بھی فراہم کئے جاتے ہیں جو یا تو خرچ نہیں ہوتے یا خورد بُرد کر لئے جاتے ہیں۔ ایڈمرل صاحب نیک اور شریف بلکہ بھولے بھالے انسان ہیں، وہ کہتے ہیں میں کسی پر الزام تراشی نہیں کرنا چاہتا، ہر ایک نے اس دنیا میں نہیں تو اگلی دنیا میں اپنا حساب خود دینا ہے اور میں نے اپنا حساب دینا ہے، میں تو اپنے خالق کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے اس سوال کا جواب تیار کر رہا ہوں کہ تمہیں عقل عطا کی، عزت دی، شہرت دی، اثر و رُسوخ دیا، اسکے بدلے میں میری مخلوق کے ساتھ کیا نیکی کی۔
ایڈمرل صاحب پاک بحریہ کے معاملات پر گفتگو کے لئے تیار نہ تھے، ان کی دلیل معقول تھی کہ میں آج کی صورتحال کو نہیں جانتا لیکن جب تک میں پاک بحریہ میں تھا تو اسکی روشنی میں یہ یقین دلا سکتا ہوں کی اللہ کے فضل سے پاک بحریہ ملک کے ساحلوں کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن انجام دے سکتی ہے۔ یہ اکہتر نہیں، اب دشمن کے ہر بم کے جواب میں ایک بم تو ہم بھی ماریں گے، آج پاک بحریہ کی آنکھیں بھی ہیں، کان بھی ہیں اور جسم میں قوت بھی ہے۔ ہماری نظر دشمن کی ایک ایک نقل و حرکت پر ہے، ہم اس کی سرگوشیوںکو سُن سکتے ہیں اور وقت سے پہلے جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔
میری آنکھوں میں اس محفل کا سحر ابھی تک بلیوں اُچھل رہا ہے، باتیں وہاں کئی اور بھی ہوئیں، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اخبار نویس کے سامنے کوئی بولنے سے گریز کرے، جناب آصف سندھیلا بولنے پر آئے تو کھل کو بولے، چاہ بہار سے گوادر تک، اورماڑہ سے پورٹ قاسم تک، شنگھائی سے کراچی تک اور عدن سے راس کماری تک کا احوال انہوں نے اشاروں ہی اشاروں میںکھول کر رکھ دیا۔
مجھے جناب سندھیلا کی یہ بات کبھی نہیں بھولے گی کہ جب وہ ریٹائر ہوئے تو وزیراعظم نے روایت کے مطابق ان سے استفسار کیا کہ وہ آئندہ کونسی ملازمت کے خواہاں ہیں، کسی ملک میں سفیر لگنا چاہیں گے یا کسی ادارے کو سنبھالنا چاہتے ہیں تو اس بے غرض انسان نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں زندہ رہے گا کہ میں نے اپنی راہ متعین کر لی ہے، مجھے اب کوئی سرکاری نوکری نہیں چاہئے، میں انسانوں کی نوکری کروں گا اور انسانیت کی خدمت کا یہ سفر ’’معاون‘‘ کے پلیٹ فارم سے جاری ہے، یہ سفر ہر کوئی اپنے اپنے طور پر بھی شروع کر سکتا ہے۔ یہ سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے آپ نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا، فرق یہ ہے کہ پہلے آپ نے اپنی زندگی سنواری، اب خلق خدا کی زندگیوں کو سنوارنا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top