Showing posts with label Dr Ajmal Niyazi (بے نیازیاں). Show all posts
Showing posts with label Dr Ajmal Niyazi (بے نیازیاں). Show all posts

Monday, 17 October 2016

Operation Zarb e Azab written by Ajma Niazi






آپریشن ضرب غضب اور آپریشن ضرب غضب


بہترین وزیر خارجہ کے طور پر اسحاق ڈار کے لیے جعلی خبریں لگوانے والے جواب دیں مگر کسے جواب دیں؟ جناب اسحاق ڈار پہلے ہی ڈاروں وچھڑی کونج کی طرح ہیں۔ اب یہ مخالفین کی طرف سے کیا گونج ہے۔ انہیں اسحاق ڈار سے ایسا مذاق کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ مگر یہ اختیار تو اسحاق ڈار کے اپنے پاس ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں کوئی بات کرنے والے؟ ہمارے پاس تو

Sunday, 16 October 2016

Ek page par sb koch ek jaisa tu nai hota written by Ajmal Niazi


ایک پیجج پر سب کچھ ایک جیسا تو نہں ہوتا

وزیر داخلہ چودھری نثار نے صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالا پھر نکالا۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ میرے خیال میں چودھری صاحب ایک فیصلہ کن آدمی ہیں۔ وہ یہ تو بتائیں کہ یہ خبر وزیراعظم ہائوس سے کیسے لیک ہوئی؟ کیوں لیک ہوئی؟ چودھری نثار نے مجھے خود بتایا تھا کہ میری فیملی کے روابط فوج سے بھی ہیں وہ سیاسی اور فوجی اداروں میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ پل ٹوٹنے سے پہلے کڑکڑ کر

Saturday, 15 October 2016

Mutanazigha Speaker world columnist club karwani yakjahti written by Ajmal Niazi


متنا زعہ سپیکر ورلڈ کالمسٹ کلب کاروان یکجہتی
جب کوئی ایک بھی ممبر اسمبلی کہہ دے کہ میں سپیکر کو نہیں مانتا تو اسے اپنے منصب کے جواز کا ضرور سوچنا چاہئے۔ چیف جسٹس کی اس بات پر بھی غور کریں کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔ اس بادشاہت میں نواز شریف کے نزدیک ایاز صادق یعنی سپیکر کی کیا حیثیت ہے؟ معلوم ہو جائے تو چیف جسٹس پاکستان کو آگاہ کر دیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ عمران خان نے پہلی بار ایاز صادق کے لئے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اپنی نشست سے نااہل ہونے کے بعد وہ دوسری بار الیکشن لڑ کر پھر سپیکر ہوئے۔ انہیں دوبارہ سپیکر نہیں بننا چاہئے تھا۔ سرکاری جماعت میں کئی لوگ ایاز صادق سے بڑھ کر ہوں گے۔ وہ نواز شریف کے لئے بھی فرماں بردار ہوں گے مگر شاید نواز شریف اس لئے ایاز صادق کے لئے بضد ہیں کہ عمران خان ن

Friday, 14 October 2016

Teri yaad ne qaim raki ashkon ki taseer Hussain written by Ajmal Niazi

تیری یاد نے قائم رکھی اشکو ں کی تاثیر حسینؓ

پیپلز پارٹی کے رہنما عامر حسن نے 10 محرم کو جناح پارک سمن آباد میں نیاز حسینؓ کے لئے ایک اکٹھ کیا۔ جس میں شعبہ سنی سب مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس کا گھر امن گھر کے نام سے موسوم ہے۔ اماموں کے امام حسین نے امن عالم کے لئے جان قربان کی۔ میرے خیال میں یہ جنگ نہ تھی۔ یہ ایک پیغام انسانیت کے لئے تھا کہ ہم امن عالم کے لئے جان بھی قربان کر سکتے ہیں۔ عامر نے نیازِ حسین تقسیم کی۔ جو گیا اس کی خاطر مدارات کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے لوگ زیادہ تھے۔ معروف لوگوں میں سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ تھے۔ اعتزاز احسن کے لئے بھی سنا ہے کہ وہ تشریف لائے۔ ہم بھی گئے جس کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ تھا۔
ہم سوشلسٹ نہیں ہیں مگر بھٹواسٹ ضرور ہیں۔ بینظیر بھٹو میرے ساتھ بہت تعلق خاطر رکھتی تھیں۔ جب وہ اقتدار میں نہ تھیں تو میں نے ان کے لئے خوب لکھا۔ جب آصف زرداری جیل میں تھے تو ہم نے بہت کالم لکھے۔ ان پر مقدمہ کرو۔ اگر قصوروار ہیں تو جیل بھیجو ورنہ رہا کرو۔ قصور ثابت ہونے سے پہلے جیل کاٹنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ان صاحب نے بہت خوشدلی اور بے خوفی سے جیل کاٹی۔ میرے مرشد اور بزرگ مولانا عبدالستار خان نیازی کہتے تھے۔ جیل میرا سسرال ہے۔ سسرال میں بہت خدمت ہوتی ہے۔
میں نے کالم لکھے کہ فیصلہ کرو۔ اس کی بہت قدر زرداری صاحب کے دل میں تھی۔ جب وہ جیل سے ایوان صدر پہنچے تو ان کے ساتھ میرا رابطہ تقریباً ختم ہو گیا تھا۔ وہ کامیاب صدر ہیں کہ انہوں نے اپنی مدت اقتدار پوری کی۔ اب بلاول بھٹو زرداری کو اپنے نام کی لاج رکھنی چاہئے۔ بھٹو صاحب اور زرداری صاحب کی سوچ کو ساتھ لے کے آگے جانا چاہئے۔ لگتا ہے وہ بہت آگے جائیں گا۔
جب ضمانت پر رہا ہو کر عدالت سے زرداری صاحب نکل رہے تھے تو ان کے ہاتھ میں ’’نوائے وقت‘‘ تھا۔ جس میں ان کے لئے میرا کالم شائع ہوا تھا۔ میرے مرشد و محبوب مجید نظامی نے زرداری صاحب کو مرد حُر کہا تھا۔ یہ بہت بڑا انعام تھا جسے زرداری صاحب نے صدر زرداری ہو کر بھی اپنے دل میں رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ زرداری صاحب کی صدر کی حیثیت سے حلف وفاداری میں مجید نظامی شریک ہوئے تھے۔ زرداری صاحب نے صرف ایک شخص کا ذاتی طور پر خیرمقدم کیا تھا۔ وہ عظیم ترین صحافی اخبار نویسوں کے لیڈر مجید نظامی تھے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ ان کے بعد ’’صدر‘‘ زرداری نے بڑے وقار اور اعتبار کے ساتھ پانچ سال ایوان صدر میں گزارے۔
مجھے دس محرم کو شہید ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی یاد آتے ہیں۔ وہ بہت دوست تھے۔ کسی کے دشمن نہیں تھے۔ انہیں جس نے مارا کاش اسے ہوتا کہ وہ کس کو مار رہا ہے۔ میرے خیال میں اچھا آدمی وہی ہے جس کیلئے عمر بھر پتہ نہ ملے کہ وہ شیعہ ہے یا سنی۔
قائداعظم کے بارے میں بہت خبریں اڑائی گئیں کہ وہ شیعہ ہیں۔ ان سے پوچھا گیا تو ان کا جواب یقین و ایمان، عشق اور عشق رسولؐ سے بھرا ہوا تھا۔ قائداعظم نے اپنے جواب کو ایسا سوال بنا دیا جس نے سوال کرنے والے کو لاجواب کر دیا ’’آپ بتائیں کہ رسول کریم حضرت محمدؐ شیعہ تھے یا سنی تھے۔ کیا مسلمان ہونا کافی نہیں ہے ہم کیا ہیں ہم مسلمان ہونے کے علاوہ بہت کچھ ہیں۔ ڈاکٹر شبہیہ الحسن ہاشمی مجھے یاد آتے ہیں۔ 10 محرم کو تو خاص طور پر یاد آتے ہیں۔ وہ صبح سویرے دروازے پر کھڑے ہوتے تھے ۔ ساتھ حلیم کا بہت بڑا برتن ہوتا۔ ہم کیسے لوگ ہیں کہ حلیم کھانے کے بعد بھی حلیم و بطع نہیں ہوتے۔ وہ غم حسین کی حقیقتوں کو جاننے والے سچے اور اچھے آدمی تھے۔ دوستیوں کو نبھانے والا ایسا آدمی اب کب آئے گا۔
اس دوران 10 محرم کو مجھے ایک کتاب ملی ’’کتاب شہداء کربلا‘‘ حضرت علامہ الحاج پیر محمد عبدالصبور بیگ منشور ہزاروی نے لکھی ہے یہ ایک آدمی کا نام ہے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے مگر کتاب پر اگر صرف پیر محمد عبدالصبور بیگ ہوتا تو کافی تھا۔ کتاب لکھتے ہوئے انہوں نے بہت محنت سے کام لیا ہے اور بڑی دلسوزی کے ساتھ تمام کہانی کو بیان کیا ہے۔ یہ لازوال قربانی کی کہانی ہے اس کا عنوان ہر زمانے میں بدلتا رہا ہے
عجیب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
ہم ذکر حسین سے اپنی روحوں کو بے قرار اور سرشار کرتے ہیں اور ہم اسماعیل کی قربانی کا دن بھی مناتے ہیں اور اسے بقر عید کہتے ہیں۔ غم میں غیر محسوس طریقے سے ایک لطف بھی ہوتا ہے۔ جسے ہم لذت گریز کہتے ہیں۔ جو رونے کا مزا نہیں لے سکتا وہ جینے کا لطف بھی نہیں اٹھا سکتا۔ میرا ایک شعر ہے
کب کی بھول چکے ہوتے ہم عادت مل کر رونے کی
تیری یاد نے قائم رکھی اشکوں کی تاثیر حسینؓ
رونا ضروری ہے۔ بے سبب بھی رونا چاہئے۔ حضور کریمؐ نے فرمایا۔ لوگو رویا کرو رو نہیں سکتے تو روتے ہوئے لوگوں جیسی شکل بنا لو۔ رونے سے دل میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ رسول کریمؐ رویا کرتے تھے کہ آپؐ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ جاتی تھی۔

Wednesday, 12 October 2016

Modi ka yaar koun syasi picnic awr zazla zadgan written by Dr Mohammad Ajmal niyazi


ہمارے سیاستدان سیاست نہیں کرتے بلکہ پکنک مناتے ہیں۔ ہمارے دوست اور سابق ایم پی نے ایک پکنک گوشہ بنوایا ہے۔ جہاں پر سیاسی جماعت کے لوگوں کو دعوت ہے کہ وزٹ کریں اور پکنک منائیں۔ میاں صاحب کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ سیاست میں ہر طرح کی بے انصافی کے خلاف ہیں اب وہ ایم پی اے نہیں ہیں کہ انہوں نے الیکشن ہی نہیں لڑا وہ الیکشن میں حصہ لیں گے تو ہر صورت میں کامیاب ہونگے۔ اب بھی ان کی حیثیت ممبران اسمبلی سے بہت زیادہ ہے۔ ان کا لنگر چلتا رہتا ہے۔ ان کا ڈیرہ آباد ہے اور وہ انتہائی دوست نواز آدمی ہیں۔ سیاستدان بھی زبردست ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں مثبت تفریح کا بھی خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری ہمیں پسند ہیں۔ وہ ہمیں اس لئے بھی پسند ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ بھٹو اور زرداری دونوں ہیں۔ بھٹو پاکستان کا ایک بڑا وزیراعظم تھا اور آصف زرداری ایک کامیاب صدر ۔ بلاول کو ان کی تقلید میں سیاست کرنا چاہئے۔ بلاول کی ماں دو بار وزیراعظم پاکستان رہی ہیں۔ صرف اسی صورت میں بلاول کی کامیابی ہے۔
میں بلاول کو پاکستان کا ایک بڑا نوجوان لیڈر سمجھتا ہوں۔ بے نظیر بھٹو بھی سیاست میں آئی تو جواں تھیں۔ بلاول کو اللہ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ اپنے والد صاحب سے ٹریننگ لیتے رہے تو کوئی مشکل نہ ہو گی ’’صدر‘‘ زرداری نے ابھی پاکستان نہ آ کر بلاول کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی جگہ بنا لیں۔
نامور صحافی دلیر انسان ضیاء شاہد نے کہا ہے کہ مسلم امہ کو شاہ فیصل جیسے حکمران اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے وزیر خارجہ کی ضرورت ہے انہوں نے دونوں شریفوں وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو پکارا ہے کہ پاکستان نیو کلیئر پاور ہے اور ایک بہت مضبوط فوج ہمارے پاس ہے تو کشمیریوں پر کیوں ظلم ہو رہا ہے۔ یہ ظلم و ستم بند کروائیں۔ ورنہ ایک طاقتور ملک ہونے کا کیا فائدہ؟
ہم بلاول بھٹو زرداری کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب میں کائرہ کو صدر اور عزیز چن کو جنرل سیکرٹری بنایا ہے۔ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی مستند متحرک اور مخلص لوگوں کو لایا جائے۔ فیصل آباد کے بہت زبردست، بے باک اور بہادر سیاستدان رانا آفتاب کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خارجہ اور اب تحریک انصاف کے نمبر دو رہنما شاہ محمود قریشی نے پوچھا ہے کہ یہ تو بتایا جائے کہ مودی کا یار کون ہے۔ اس سوال کا جواب شاہ محمود کی خواہش کی طرح موجود ہے کہ کاش یہ اشارہ میری طرف ہوتا۔ حالانکہ بلاول بھٹو نے مودی کے یار کیلئے بڑا واضح اشارہ کیا ہے۔!۔ اس نے نواز شریف سے صلح کر لی ہے۔ پھر بھی یہ نعرہ زندہ ہے بلکہ کچھ حلقوں میں ’’زندہ باد‘‘ ہے۔ نواز شریف یا کسی دوسرے نے اس کی تردید نہیں کی ہے۔ البتہ بلاول نے اس نعرے میں کچھ زیادہ ہی کھچائی کر دی ہے۔
اب جبکہ بلاول نے نواز شریف سے صلح کر لی ہے اس کی صلح شیخ رشید سے بھی ہو گئی ہے اور عمران خان سے بھی معاملہ چل رہا ہے۔ اب بلاول کی طرف سے نئے نعرے کا انتظار ہے؟ الطاف حسین سے بھی مشورہ ہو سکتا ہے نئے نئے روابط ہیں مگر مودی کے ساتھ پرانے تعلقات الطاف حسین کے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے ہی ایک رہنما رحمان ملک ایک تصویر میں بہادر کشمیری رہنما یاسین ملک کی بیوی مشعال ملک کو پاکستانی پرچم کا دوپتہ اوڑھا رہے ہیں۔ ایک تو میری خواہش ہے کہ مشعال ملک اب ہمیشہ پاکستانی پرچم کا دوپٹہ اوڑھا کریں۔ وہ ایک کشمیری رہنما کی بیوی بھی ہیں انہیں کشمیری شال بھی سردیوں میں اوڑھنا چاہئیے۔ گرمیوں میں پاکستانی پرچم والا ڈوپٹہ سردیوں میں کشمیر کے نقشے والی شال۔
مشعال ملک کو رحمان ملک سے یہ تو پوچھنا چاہئے کہ وہ پاکستانی حکومت میں بھی رہے ہیں اور پاکستانی سیاست بھی کر رہے ہیں؟ انہوں نے پاکستانی پرچم والی پگڑی ایک دفعہ بھی پہنی تھی اور انہوں نے پاکستانی پرچم کی عزت و عظمت کیلئے کوئی ایک کارنامہ بھی کیا ہے؟ سوائے اس کے وہ پاکستانی حکومت کے وزیر رہے اور ان کی گاڑی پر سبز ہلالی پرچم لہرایا کرتا تھا۔ مشعال ملک سے پہلے انہوں نے ایان علی کیلئے بہت معرکہ آرائی کی تھی کبھی انہوں نے ایان علی کو بھی پاکستانی پرچم والا دوپٹہ اوڑھا تھا۔ وہ تو عام طور پر ننگے سر پھرا کرتی تھیں۔
افتخار حجاز میٹھی اور دوستانہ حقیقتوں کا آدمی ہے۔ بہت دوست دوستدار اور دوست نواز ہے اس کی اپنی خوشبو بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ اعزاز احمد آزر کا بھائی ہے۔ وہ خوشبو بھی اس کے پاس محفوظ ہے۔ خوشبو کو سنبھال کے اور چھپا کے نہیں رکھا جا سکتا۔ مگر خوشبو میں آدمی کھو تو سکتا ہے۔
افتخار مجھے برادرم آصف محمود جاہ کے پاس لے گئے۔ ان کے گھر کوئی جلسہ ہو رہا تھا۔ وہاں خدمت خلق کے حوالے سے باتیں ہو رہی تھیں۔ خدمت خلق کا بہت بڑا حوالہ خود آصف محمود جاہ ہیں۔ وہ ڈاکٹر ہیں اور کسٹم آفیسر بھی ہیں فلاحی شخصیت بھی ہیں اسی خدمت اور اخوت کے جذبے میں پاکستان کی سیر کی ہے۔ جنگلوں، پہاڑوں، دریائوں کے کناروں، میدانوں اور دشوار گزار راستوں پر اپنی محبت کے گھر بنائے ہیں۔ اب وہاں جو لوگ رہتے ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دیتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی کوئی ڈیوٹی لگائی جائے تو وہ اسے پورا کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا دے گا۔ میں نے بھی کہا کہ میری بھی ڈاکٹر صاحب کوئی ڈیوٹی لگائیں مگر گزارش ہے کہ کوئی آسان سی ڈیوٹی لگائیں۔
برادرم منشا قاضی نے سٹیج لگایا اور لفظ و معافی کے ڈھیر لگا دیئے۔ مزمل شاہ ڈاکٹر آصف کی بہت ہونہار بیٹی، شفیق صاحب اور افتخار مجاز نے گل و گلزار کھلا دئیے۔ ڈاکٹر آصف نے جو معرکہ ارائیاں کی ہیں۔ اس کی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی ہے۔ زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے ڈاکٹر صاحب نے جوسفر کئے جو خدمات سر انجام دیں۔ اسے سن سن کے میرے اندر زلزلوں کے لشکر گھس آئے۔
شفیق صاحب کی دوستانہ شفقتوں کے علاوہ شیخ اسحاق احمد کی محبتوں نے سرشار کر دیا۔ وہ ’’لبیک کینسر کیئر فائونڈیشن‘‘ کے فنانس سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک خوبصورت پنسل دی۔ سوچ رہا ہوں میں اس سے کونسا لفظ لکھوں جو اس عطائے دوستانہ کے لائق ہو۔ چند بادام بھی دیئے وہ تو میں نے وہیں کھالئے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیٹی میری بیٹی ہے کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ میرے بارے میں ایک دوست نے پوچھا تھا کہ یہ واقعی ڈاکٹر ہے یا ویسا ہی ڈاکٹر ہے۔ جیسا ڈاکٹر اقبال تھا۔ تو جناب بڑے ادب سے عرض ہے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر آصف محمود بھی ہیں۔ انہوں نے کسٹم کیئر ہیلتھ سوسائٹی بھی بنائی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف کسٹم والوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان کے ڈیرے پر ایک ہجوم ہوتا ہے۔ ہجوم عاشقان۔ گیارہ سال بعد کسی نے زلزلہ زدگان کو یاد نہیں کیا۔

Tuesday, 11 October 2016

اخوت کی جہانگیری حجاز کا مجاز غیرت کا غرور written by Dr Ajmal niazi(column)


اخوت کی جہانگیری حجاز کا مجاز غیرت کا غرور: ڈاکٹر امجد ثاقب فلاح و بہبود کے کاموں میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے ان کی

فلاحی تنظیم کا نام اخوت اب غریب اور بے آسرا خواتین و حضرات اور طلبہ و طالبات
Back to Top