Sunday 16 October 2016

Ek page par sb koch ek jaisa tu nai hota written by Ajmal Niazi


ایک پیجج پر سب کچھ ایک جیسا تو نہں ہوتا

وزیر داخلہ چودھری نثار نے صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالا پھر نکالا۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ میرے خیال میں چودھری صاحب ایک فیصلہ کن آدمی ہیں۔ وہ یہ تو بتائیں کہ یہ خبر وزیراعظم ہائوس سے کیسے لیک ہوئی؟ کیوں لیک ہوئی؟ چودھری نثار نے مجھے خود بتایا تھا کہ میری فیملی کے روابط فوج سے بھی ہیں وہ سیاسی اور فوجی اداروں میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ پل ٹوٹنے سے پہلے کڑکڑ کر
رہا ہے۔
فوج کی قربانیوں اور کارکردگیوں کو کیوں فراموش کیا جا رہا ہے۔
آپریشن ضرب عضب بھول گیا ہے تو کیا آپریشن ضرب غضب کو بھول جانے کی طاقت ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اعلیٰ سطح کے سیاسی اور عسکری اجلاس میں کوئی بدمزگی سی ہوئی تھی۔ مگر یہ بات باہر کیسے نکلی۔ سیاسی اور عسکری ادارے کا وہ حال ہے جیسے بارہ سنگھے ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے گھور رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکر کے بغیر سینگ پھنسا کے بیٹھ گئے ہیں۔ نواز شریف اس سنگین اور بہت سنجیدہ صورتحال کو نظرانداز کر رہے ہیں مگر یہ نظرانداز ہو گی؟
آرمی چیف بھی شریف ہیں وزیراعظم بھی شریف ہیں تو یہ غیر شریفانہ رویہ کیا ہے جو سرکار دربار کے مصاحبین اختیار کر رہے ہیں۔ چودھری صاحب پر نظر جا کے ٹھہرتی ہے وہی کوئی کردار ادا کریں۔
آرمی چیف نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور قومی یکجہتی کے لئے بھی اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم آذربائیجان چلے گئے ہیں کاش وہ آذر ’’بھائی جان‘‘ گئے ہوتے۔ آذر بھائی جان کی اصطلاح برادرم نذیر ناجی نے بھی استعمال کی ہے اور وہ زیادہ بامعنی ہے۔ آرمی چیف تو سیاسی ہم آہنگی کے حق میں ہیں۔ سیاسی چیف ابھی تک کوئی بات نہیں کر رہے۔ صرف چودھری نثار علی خان سیاسی اور عسکری قیادت کی ہم آہنگی کی بات کر رہے ہیں۔ وہ فوج کے ساتھ ہیں اور حکومت کے بھی ساتھ ہیں۔
یہ جملہ حضرت علیؓ کا ہے اور مجھے برادرم مشہود شورش نے بتایا ہے۔ نیوزویک کی ایک اشاعت میں سابق صدر جمی کارٹر نے کہا ہے کہ پاکستان کو بہت نیچے جاتا دیکھ رہا ہوں۔ جس ملک میں اہم ایشو پر چند لوگ بحث مباحثہ لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے قومی مسائل کی بجائے ذاتی اور جماعتی مسائل پر زور دیتے ہوں۔ وہ کیسا ملک ہو گا۔
چودھری نثار کہتے ہیں کہ خبر لیک کرنے میں کابینہ کے وزیر ملوث ہیں کہ نہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے بقول حکومت نے الطاف حسین کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا ۔اس حوالے سے چودھری صاحب کا کیا خیال ہے؟ اصل اپوزیشن لیڈر عمران خان کے لئے کہتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر نواز شریف کا خیر خواہ کوئی نہیں ہے تو چودھری صاحب کس کے خیر خواہ ہیں؟ خورشید شاہ سے پوچھیں گے۔ عمران خان کے لئے ان کی بات بے معنی مگر دلچسپ ہے۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ چودھری نثار اپنے گھر کی فکر کریں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی بات بھی دلچسپ ہے کہ ہم پانامہ لیکس کے معاملے میں نواز شریف کے بہت خلاف ہیں۔ مگر نواز شریف کی جمہوری حکومت کے حق میں ہیں۔ اسے بچانے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے۔ میں ’’صدر‘‘ زرداری کو پسند کرتا ہوں۔ انہوں نے پانچ سال بڑی آسودگی سے راج کیا۔ وہ پاکستان کے کامیاب صدر تھے۔ ان کا تازہ بیان ان کے بڑے سیاستدان ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔
امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ پر مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ انہوں نے نجانے کب خواتین سے بے باکی کی ہوگی۔ مگر اب پھنس گئے ہیں ۔ میں پریشان اس لئے ہوں کہ امریکہ میں بھی ہر کام ہوتا ہے تو پاکستان کو امریکہ میں کیوں بدنام کیا جاتا ہے۔
شاہی مسجد میں 10محرم کے حوالے سے سیکرٹری اوقاف نوازش علی، ڈی جی اوقاف سید طاہر رضا بخاری اور شاہی مسجد کے امام مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا ہے کہ امام حسینؓ نے صبروتحمل اور برداشت کا بہت بڑا سبق دیا ہے۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دیں پناہ است حسین
حسینی جذبے کو فروغ دینے کے حوالے سے جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید کے خلاف بھارت نے پھر مہم چلائی ہے۔ بھارت پاکستان سے نہیں ڈرتا مگر حافظ سعید سے ڈرتا ہے۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ وہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ڈرتا ہے اس قوت کا کوئی منظر ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے دشمن تلاش کر لینے چاہئیں انہیں سزا بھی دینا چاہیے۔
مقبول چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے جمہوریت کے نام پر بادشاہت کی بات کی ہے اس بیان کے فوراً بعد ایک بادشاہی فیصلہ سامنے آیا ہے کہ 22 گریڈ کی سب سے جونیئر افسر کو سیکرٹری خارجہ بنایا جا رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے تمام افسران نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس خاتون افسر کے لئے بے جا نوازش کی گئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ سب افسران کے استعفے قبول کرلئے گئے ہیں۔ یہ بھی کمال ہوگا۔
ہم مشعال ملک کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ کشمیری حریت پسند لیڈر سے شادی کرکے لیڈر بن گئی ہیں ۔مشعال ملک کا احتجاج کشمیر میں بھارتی بادشاہت کے خلاف ہے۔ بھارت اور پاکستان کو یہ سانجھا کمال حاصل ہے کہ بادشاہت جمہوری بھی ہوتی ہے۔ پھر ہندو لوگ اورنگ زیب کے کیوں خلاف ہیں اور پاکستانی لوگ نوازشریف پر کیوں تنقید کرتے ہیں۔
پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ڈیرہ غازی خان کے تعلیمی بورڈ میں ایک طالب علم کو 85 میں سے 88 نمبر دے دئیے گئے ہیں۔ یہ ریکارڈ کوئی دوسرا طالب علم کبھی نہیں توڑ سکے گا۔ مبارکباد کا مستحق وہ ٹیچر ہے اور وہ کلرک بھی ہے جس نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے اور وہ اپنے بورڈ اور اپنا نام روشن کر رہا ہے اس کا نام کوئی نہیں جانتا مگر وہ روشن ہوگیا ہے۔
آخر میں شورش کاشمیری کا ایک لازوال شعر سنئے جو مشہود شورش نے مجھے سنایا۔
ہر دور کے آقا غلام ابنِ غلام
ہر دور کی تاریخ چند سودائی
میرے قبیلے کی ایک خاتون شیریں نیازی نے کہا ہے کہ احتجاج کرنے کا حق ہر کسی کو ہے۔ اس پر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ وہ 30 اکتوبر کو باہر نکلے۔ مجھے یہ پریشانی ہے کہ شیریں نیازی کا شیریں مزاری سے کیا تعلق ہے؟ آخری جملے کے طور پر ایاز صادق سپیکر اسمبلی کو سنتے ہیں۔’’آخر اس کی ضرورت کیا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں‘‘؟

No comments:

Post a Comment

Back to Top