Showing posts with label Asar Chowhaan (سیاست نامہ). Show all posts
Showing posts with label Asar Chowhaan (سیاست نامہ). Show all posts

Sunday, 16 October 2016

Pakistan mai jamhoriat k naam par badchahat written Asar Chowhaan


پاکستان میں جمہوریت کے نام پے بادشاہت

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔ عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہو رہا ہے اور "GOOD GOVERNANCE" (اچھی طرزِ حکمرانی) کے نام پر "BAD GOVERNANCE" (بری طرزِ حکمرانی)۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس لاہور ’’میٹرو ٹرین کیس‘‘ کی سماعت کے دوران دیئے اور کہا کہ میٹرو ٹرین منصوبے سے ہمارے تاریخی ورثوں کو مٹایا جارہا ہے۔ لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت سوچنا چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ایک انگریز جج نے کہا تھا کہ جو لوگ ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں انہیں

Saturday, 15 October 2016

London Plan....plan dhumkan written by Asar Chowhaan


لندن پلان۔۔۔۔فلان ڈھمکان؟

قیام پاکستان سے چند ماہ قبل کم سن ماسٹر مدن کی گائی ہوئی غزل بہت مقبول تھی جس کا مطلع تھا۔
”میرے دل میں آئیے، میری نظر میں آئیے!
دونوں گھر ہیں، آپ کے، چاہے جہاں کہیں جاہئیے!“
میں 1957ءمیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں فرسٹ ائیر کا طالبعلم تھا جب انگریزی کے پروفیسر جناب مختار محمود قریشی نے کسی انگریز شاعر کا مصرع یا مقولہ سنایا تھا کہ.... ” Live in my Heart and pay no rent“ 90ءکی دہائی میں کسی پنجابی فلم کے گیت کا یہ مکھڑا بہت مقبول تھا۔
”کنڈی نہ کھڑکا، سوہنیا سیدھا اندر آ“
پاکستان ”دولت مشترکہ“ میں شامل تھا تو حکومت برطانیہ نے پاکستانیوں کیلئے ”سیدھا اندر آ“ یعنی ”open door policy“ اپنا رکھی تھی۔ برطانیہ کے کسی بھی ائرپورٹ پر ”VISA“ مل جاتا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کے قائد انقلاب ماﺅزے تنگ نے اپنی مملکت کو ”Iron Curtain“ (لوہے کے پردے) سے ڈھانپے رکھا اور 1976ءمیں ”open door policy“ اپنا لی تھی۔ چین کے عوام نے پہلے سوشلسٹ معیشت کے فائدے اٹھائے اور پھر ”Free Economy“ سے ۔ برطانوی حکومت نے کمال یہ کیا کہ اپنے غلام ملکوں کو آزاد کر کے ”دولت مشترکہ“ کے جال میں جکڑ لیا اور اپنے آزاد کردہ ملکوں کے منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں کو ملکہ معظمہ کی کرسی کے برابر کرسیوں پر بٹھا دیا۔ جن سیاستدانوں کے خلاف اپنے اپنے ملکوں میں مختلف مقدمات تھے، انہیں سیاسی پناہ اور برطانوی شہریت دے کر دونوں ملکوں میں ”باعزت“ بنا دیا۔
تو معزز قارئین و قاریات! ان دنوں پاکستان کے سیاسی حلقوں، میڈیا اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے حوالے سے ”لندن پلان کا چرچا ہے۔ شاعر نے کہا تھا کہ....
”زینت حلقہ آغوش بنو!
دور بیٹھو گے تو چرچا ہو گا!“
علامہ طاہر القادری 2014ءمیں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت گرانے کیلئے عمران خان کے ”ہم دھرنا“ تھے اور ایک دن موصوف خان صاحب کو بتائے بغیر اپنا دھرنا ختم کر کے یہ جا اور وہ جا! 30 ستمبر کے رائے ونڈ مارچ میں القادری صاحب غائب تھے۔ بات یہاں تک گئی کہ خان صاحب نے میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ”میں نے کسی سے کوئی رشتہ تو نہیں مانگا تھا“۔ مختلف نیوز چینلوں پر عمران خان کی گفتگو سننے والے ناظرین حیران تھے کہ ”خان صاحب موقع بے موقع اپنے رشتے کی بات کیوں کرتے ہیں“؟ بہر حال القادری صاحب 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں مجوزہ دھرنے میں پلا نئیں پھڑا رہے تھے۔ لندن چلے آئے۔ عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد اور پاکستان تحریک انصاف کے دو قائدین (سابق گورنر پنجاب) چودھری محمد سرور اور جناب جہانگیر ترین علامہ القادری دی ٹور ویہندے ویہندے لندن آ گئے اور علامہ القادری کینیڈا چلے گئے اور فضا میں:....
”دے جا وے دے جا ویرا پلا پھڑائی“
کا نعرہ گونج رہا ہے لیکن ”لندن پلان“ کا کیا ہو گا۔ علامہ طاہر القادری کے جھنگوی دوست بابا ٹل چند لمحوں کے لئے میرے خواب میں آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”لندن پلان کیا ہے“؟ صرف ”فلان ڈھمکان“۔ اب میں ”فلان ڈھمکان“ کا مطلب کس سے پوچھوں؟ ستمبر کی دہائی کے شروع میں بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن سے ہمارے پختون لیڈر خان عبدالولی خان اور جناب بھٹو کے مخالف کچھ دوسرے پاکستانی سیاستدانوں کی ملاقات ہوئی۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اس ملاقات کو ”لندن پلان“ کا نام دیا۔ لندن کے لوگ عرصہ دراز سے لندن میں رہ کر اپنے اپنے ”پلان“ (منصوبے) بناتے رہے لیکن کسی نے بھی اسے مشکوک قرار نہیں دیا تھا۔ مولانا نیازی نے یہ تاثر دیا کہ ”لندن میں بنگلہ دیش کے صدر کے ساتھ حزب اختلاف کے سیاستدانوں کی ملاقات پاکستان کے خلاف یا کم از کم بھٹو صاحب کے خلاف کوئی سازش ہے“۔
جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے اور ہمارے دو سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطن۔ مئی 2006ءمیں دونوں لیڈروں نے لندن میں ”Charter of Democracy“ (میثاق جمہوریت) پر دستخط کئے تو جنرل پرویز مشرف نواز حلقوں نے اسے بھی ”لندن پلان“ کا نام دیا برطانوی شہری ”پاکستان بنانے والوں کی اولاد“ اردو سپیکنگ مہاجروں کی جماعت ایم کیو ایم کے قائد سے جب بھی کسی پاکستانی سیاستدان کی لندن میں ملاقات ہوئی تو اسے ”لندن پلان“ ہی کہا گیا۔
سال رواں میں مئی کے مہینے میں وزیراعظم نواز شریف لندن میں علاج درد دل کرایا۔ ان کے اہل خانہ بھی لندن میں ہی رہے اور وزیراعظم ہاﺅس کے بعض کارندے بھی۔ 30 مئی کو وزیراعظم صاحب نے لندن میں بیٹھ کر ”Video Link“ کے ذریعہ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل کی صدارت کی اور پس منظر کو نیوز چینلوں پر پاکستانی قوم بلکہ اقوام عالم نے دیکھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا۔ جو کچھ ہوا کھلے بندوں ہوا۔ وزیر اعظم صاحب کو اس پلان کو ”لندن پلان“ نہیں کہا گیا۔ کیونکہ بظاہر ان کی نیت نیک تھی۔ جناب عمران خان نے جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی، لندن میں ”Planning“ کی۔ اس کو ان کا ”لندن پلان“ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی ان کی طلاق کو یہ محض اتفاق ہے کہ جناب عمران خان اور .... ریحام خان نے لندن میں شادی کی پلاننگ کی اور پھر طلاق۔ اسے بھی لندن پلان نہیں کہا جا سکتا۔ وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے مختلف افراد کے نام پانامہ لیکس کے حوالے سے منظر عام و خاص پر آئے تو اسے بھی ”شریف خاندان کا لندن پلان“ کہا جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ علامہ طاہر القادری پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ملکہ الزبتھ دوم سے وفاداری کا حلف اٹھا کر کینیڈا کی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے دونوں بیٹے حسن محی الدین اور حسین محی الدین بھی اور وہ دونوں پاکستان عوامی تحریک کی ہائی کمان میں شامل ہیں۔
علامہ طاہر القادری کسی بھی ملک میں رہیں اور گھومیں پھریں ملکہ معظمہ سے وفاداری ان کا اخلاقی اور آئینی فرض ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کو ہم مسلمان بھی پیغمبر خدا مانتے ہیں علامہ القادری بھی مسلمان ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا تھا کہ ”کوئی بھی شخص دو آقاﺅں سے وفادار نہیں رہ سکتا“۔ عمران خان کے دونوں بیٹے سلیمان خان اور قاسم خان برطانوی شہری ہیں لیکن ان کا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جناب عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا اتحاد غیر فطری تھا اور غیر فطری رہے گا۔ القادری صاحب ”شیخ السلام“ ہیں اور عمران خان عام مسلمان۔ ”شیخ الاسلام“ کے ہاتھ میں فتوی فروشی کا ڈنڈا بھی ہے، جو عمران خان کے ہاتھ میں نہیں دسمبر 2012ءمیں پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کیلئے تشریف لائے تھے تو ”شاعر سیاست“ نے ان کیلئے کہا تھا....
اس کے دونوں ہاتھوں میں
”فتویٰ فروشی کا ڈنڈا ہے
بلوہ فتنہ، فساد، لڑائی
ہی اس کا ایجنڈا ہے
ارض پاک میں اس کو
اچھا لگتا نہیں، جمہوری نظام
ملکة الزبتھ کی رعیت ہے
بن بیٹھا، شیخ الاسلام“
6 اگست 2014ءکے دھرنے میں ”شیخ الاسلام“ نے کہا تھا کہ ”میں انقلاب لائے بغیر پاکستان سے نہیں جاﺅں گا اور بدعنوان لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا۔ خواہ ان کی تعداد لاکھوں کیوں نہ ہو جائے؟کیا عمران خان ”لندن پلان“ میں شیخ الاسلام کے اس ایجنڈے کو شامل کر لیں گے؟ مجھے تو بابا ٹل کا یہ موقف درست لگتا ہے کہ ”لندن پلان.... فلان ڈھمکان“!

Friday, 14 October 2016

Agaye hai senkron halwayee muslim league mai written by Asar Chowhaan


آگئے ہے سینکڑوں حلوائی مسلیم لیگ میں

18 اکتوبر کو حکمران پارٹی مسلم لیگ (ن) میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ دوسری جمہوری پارٹیوں کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی جمہوری پارٹی کہلاتی ہے۔ مجھے بچپن سے ہی مسلم لیگ کے نام سے لگاﺅ ہے۔ پاکستان قائم کرنے والی، قائد اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ تو ہندوستان کے مسلمانوں کی نجات دہندہ تھی۔ میرے والد صاحب رانا فضل اس مسلم لیگ کے کارکن تھے۔ ان دنوں مسلمانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کرنے کیلئے یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ

”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ“
اور اس کے ساتھ متعصب ہندوﺅں کی ”انڈین نیشنل کانگریس“ کے ہم نوا ”کانگریسی مولویوں“ کی طرف سے یہ فتویٰ بھی دیا گیا تھا کہ جو مسلمان مسلم لیگ میں شامل ہو گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ پاکستان قائم ہوا تو میں گیارہ سال کا تھا۔ میں مشرقی پنجاب کی سکھ ریاست ”نابھہ“ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے محلے میں ایک مسلم لیگی کارکن لطیف خان پہلوان رہتے تھے۔ میں نے کئی بار انہیں کسی کانگریس مولوی کو راستے میں روک کر دل لگی کرتے دیکھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ
”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ“
”نئیں تے جا خصماں نوں کھا“
میں اگر ان دنوں بڑی عمر کا ہوتا تو مسلم لیگ میں شامل ہونے والے مسلمانوں کے نکاح ٹوٹنے کا فتویٰ دینے پر کسی کانگرسی میں مولوی سے ضرور پوچھتا کہ ”کسی کنوارے مسلمان کا مسلم لیگ میں شامل ہونے پر اس کا نکاح کیسے ٹوٹے گا؟ عین ہی ممکن ہے کہ وہ کانگرسی مولوی کچھ یہ جواب دیتا کہ ”جب کسی کنوارے مسلمان کا نکاح ہو گا تو فوراً ہی ٹوٹ جائے گا“۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو بھی ”مسلم لیگ“ کے نام سے محبت تھی۔ تحریک پاکستان کے کچھ کارکنوں نے ”آل پاکستان کنونشن مسلم لیگ“ بنائی اور اس کی صدارت طشتری میں رکھ کر صدر ایوب خان کی خدمت میں پیش کر دی۔ ہر تحصیل، شہر اور ضلع میں سرکار پرست لوگ اپنے اہل خانہ اور برادری سمیت کنونشن مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ میرے دوست ”شاعر سیاست“ اس دور میں ہوتے تو یہ کہتے کہ
بیٹا ہے، داماد بھی اور بھائی مسلم لیگ میں
چاچا، چاچی، تایا ہے اور تائی مسلم لیگ میں
میری بیوی، بیٹی اور ماں بھائی مسلم لیگ میں
سالا سالی اور ہے بھر جائی مسلم لیگ میں
کئی سال بعد ”قائد عوام“ اور ”شہید“ کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل ایوب خان کے ”BLUE EYED BOY تھے اور آل پاکستان کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل۔ ایک دن اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ”بھٹو صاحب نے صدر ایوب خان کو مشورہ دیا ہے کہ ”ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ضلعی کنونشن مسلم لیگ کا صدر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو سیکرٹری نامزد کر دیا جائے لیکن صدر ایوب خان نے بھٹو صاحب کا یہ مشورہ مسترد کر دیا۔ ان دنوں تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن اور اسلامیہ کالج لاہور کے سابق پرنسپل سید محمد علی جعفری المعروف ”بابا جعفری“ کے فرزند معروف شاعر سید جعفری، فیلڈ مارشل ایوب خان اور ان کی مسلم لیگ کے بجتے ڈھول کا پول کھولنے کے ماہر تھے.... میں نے جعفری صاحب کو کئی مشاعروں میں سنا اور ان کا انداز اپنانے کی کوشش بھی کی لیکن ”جائے استاد خالی است“ والا معاملہ تھا۔
1994ءمیں میرے لہوری دوست (سید یوسف جعفری نے مجھے کلیات سید محمد جعفری تحفہ میں دی اس میں سے ”کنونشن مسلم لیگ“....
”آج کل ہیں، حضرت ابلیس، مسلم لیگ میں
دے رہے ہیں مشورے، بے فیس مسلم لیگ میں
ہے علی بابا الگ، چالیس مسلم لیگ میں
تو سن چالاک کے، سایئس، مسلم لیگ میں
لیگ کے گھوڑے کو پشتک اور دولتی سے کام
بعد مرگ قائد اعظمؒ، ہوا ہے بدلگام“
2 جنوری 1965ءکو ہونے والے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان امیدوار تھے۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادر ملت“ کا خطاب دیا اور انہیں صدر ایوب خان کے مقابلے میں انتخاب لڑنے پر رضا مند کر لیا۔ ”مادر ملت“ کونسل مسلم لیگ کی امیدوار تھیں۔ اس دور میں صدر ایوب خان کے چھوٹے بھائی کونسل مسلم لیگ کے سردار بہادر خان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ ایک دن انہوں نے ایوان میں یہ شعر پڑھا....
”یہ راز تو کوئی راز نہیں، سب اہل گلستاں جانتے ہیں
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا؟“
صدر ایوب خان نے اپنی والدہ صاحبہ سے شکایت کی اور سردار بہادر خان سیاست چھوڑ گئے۔ جنرل ضیاءالحق نے 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد کنونشن مسلم لیگ کے سابق وزیر ریلوے محمد خان جونیجو کی صدارت میں نئی مسلم لیگ بنوائی۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے قومی اخبارات کے ایڈیٹرز کے ایک اجلاس میں ان سے کہا کہ.... ”جنرل صاحب! تسیں ساڈی جان کدوں چھڈو گے؟“ میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔ ڈاکٹر مجید نظامی سے میاں صاحب کے والد میاں محمد شریف کے تعلقات تھے۔ جنرل ضیاءالحق اور ڈاکٹر مجید نظامی دونوں ہی میاں نواز شریف پر مہربان تھے۔ میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور ایٹمی دھماکا کرنے سے گھبرا رہے تھے تو ڈاکٹر مجید نظامی نے انہیں بھی قومی اخبارات کے ایڈیٹرز کے اجلاس میں کہا تھا کہ ”وزیر اعظم صاحب!“ ایٹمی دھماکا نہیں کرو گے تاں قوم تہاڈا دھماکا کر دوے گی“.... پھر وزیراعظم صاحب نے دھماکا کر دیا۔
25 مئی 2013ءکو میاں نواز شریف نے ایوان کارکنان، تحریک پاکستان میں جناب مجید نظامی کی صدارت میں ”یوم تکبیر“ کے سلسلے میں منعقدہ تقریب میں کہا تھا کہ ”میں نے اپنی وزارت عظمی کے دوسرے دور میں ایٹمی دھماکا کیا تھا۔ اب میں معاشی دھماکا کروں گا۔ ڈاکٹر مجید نظامی اب عالم جادوانی میں ہیں ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ ”مسلم لیگ“ کے نام سے سیاست کرنیوالے سارے دھڑے ایک ہو کر متحدہ مسلم لیگ میں ڈھل جائیں لیکن ہر کوئی ”اپنا اپنا مسلم اور اپنی اپنی لیگ“ لئے پھرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی مسلم لیگ کے نام سے محبت تھی۔ انہوں نے بھی مسلم لیگ بنوائی اور میاں نواز شریف کے ”جگری دوست“ سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو صدر منتخب کرا دیا۔ پھر چودھری شجاعت حسین کو ”حلالہ وزیر اعظم بھی بنایا تھا“۔ جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بعد چودھری صاحبان کو اپنی مسلم لیگ (قائد اعظم) اپنے محسن کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے تھی؟ ان کی مرضی
جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے اپنی پارٹی بنانے کی خبریں پھیل رہی تھیں چودھری صاحبان نے انہیں کسی صوفی کے ذریعے یہ پیغام بھی نہیں بھجوایا کہ
”تم کوئی اچھا سا رکھ لو، اپنے دیوانے کا نام“
جناب پرویز مشرف نے اپنی پارٹی کا نام ”آل پاکستان مسلم لیگ“ رکھ لیا۔ اب کر لو جو کرنا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ”سارے فیصلے راولپنڈی میں کئے جاتے ہیں“ شیخ رشید احمد پہلے ”فرزند راولپنڈی“ کہلاتے تھے۔ پھر ”فرزند پاکستان“ کہلائے۔ انہوں نے اپنی قیادت میں عوامی ”مسلم لیگ“ بنا لی شیخ صاحب وزیراعظم نواز شریف اور پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات رہ چکے ہیں.... اور اگر مناسب سمجھتے تو مسلم لیگ (ن) اور آل پاکستان مسلم لیگ کے درمیان ”پل“ کا کردار ادا کر سکتے تھے۔ لیکن میاں نواز شریف اور جنرل (ر) پرویز مشرف نے انہیں شاید انگریزی کا ”PULL“ سمجھ لیا تو بات نہیں بنی.... میاں نواز شریف اپنے کئی مخالف سیاستدانوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ”وہ میری“ Leg Pulling کر رہے ہیں۔ (یعنی ٹانگ کھینچ رہے ہیں)۔ مرزا غالب نے نہ جانے کس موڈ میں کہا تھا کہ....
تیری طرف ہے یہ حسرت، نظارہ نرگس
بگوری دل و چشم رقیب ساغر کھینچ
مسلم لیگ نام کی.... کوئی پارٹی اپنے انتخابات کرائے یا نہ کرائے؟ میرے دوست، ”شاعر سیاست“ نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں مسلم لیگ ن کے انتخابات کی تعریف کروں۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
اتنی ہے اخلاص کی گرمائی مسلم لیگ میں
پی نہیں سکتا کوئی سردائی مسلم لیگ میں
بج رہی ہے پیار کی شہنائی مسلم لیگ میں
اب کوئی کیسے رہے ہر جائی مسلم لیگ میں
لکشمی دیوی کو دیکھو آئی مسلم لیگ میں
ہر کس و ناکس نے عزت پائی مسلم لیگ میں
بٹ رہی ہے جابجا مٹھائی مسلم لیگ میں
آگئے ہیں سینکڑوں حلوائی مسلم لیگ میں

Wednesday, 12 October 2016

Hussain Tere behtar saron ko salaam written by Asar Chowhan


عام دِنوں میں بھی لیکن محرم کے دِنوں میں خاص طور پر مجھے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ بہت یاد آتے ہیں۔ میرے آبائواجداد کا تعلق اجمیر سے اور انہوں نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے دستِ مبارک پر ہی اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت خواجہ صاحب تبلیغ اسلام کے لئے ہندوستان تشریف لائے تو انہوں نے اہلِ ہند سے نواسۂ رسولؐ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’شاہ ہست حسینؓ، پادشاہ ہست حسینؓ
دین ہست حسینؓ، دین پناہ ہست حسینؓ
سرداد نداد، دست، در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالہ، ہست حسینؓ‘‘
یعنی۔ ’’ہمارے شاہ اور بادشاہ امام حسینؓ ہیں۔ دینِ اسلام اور دین کی پناہ بھی وہی ہیں۔ (انہوں نے دین کی بقاء کے لئے) اپنا سر قلم کرا لیا لیکن (خلافت کے نام پر) یزید کی ملوکیت کو قبول نہیں کیا۔ حقیقت میں امام حسینؓ کلمۂ طیبہ (اسلام) کی بنیاد ہیں‘‘۔ مجھے محرم کے دنوں میں یہ حدیث رسولِ مقبولؐ بھی یاد آتی ہے کہ ’’میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں‘‘۔ سانحۂ کربلا کے وقت کے علماء کے بارے میں پنجاب کے صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ نے کہا تھا۔
’’جے کر دین علم وِچ ہوندا
اٹّھاراں ہزار جے، عالم آہا
اوہ اگے حسینؓ دے، مَردے ہُو
جو کجھ ملاحظہ سَروَر دا کر دے
تاں خیمے، تمبُو، کیوں سڑ دے ہُو
پَر صادق دِین تِنباں دے باہُو
جو سرِ قُربانی، کر دے ہُو!‘‘
یعنی۔ ’’دینِ اسلام اگر عِلم میں ہوتا (تو میدانِ کربلا میں اہلِ بیتؓ) کے سَروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ (اُس وقت یزیدی سلطنت کے اندر) 18 ہزار عالم تھے۔ (انہوں نے یزیدیت کے خلاف بغاوت کر کے) حضرت حسینؓ پر اپنی جانیں قربان کیوں نہ کر دیں؟۔ اگر وہ علماء حق پرست ہوتے تو وہ آلِ رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اور اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی تابعداری اور اطاعت کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بیتؓ کا پانی کیوں بند کر دیتے؟ اے باہُو! جو لوگ سچے لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں، وہی دین کی حفاظت کرنے والے اور سچّے ہیں‘‘۔ ثابت ہوا کہ یزیدی دور میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل علماء نہیں تھے۔ جب امام حسینؓ اور اُن کے 72ساتھیوں کو شہید کیا جارہا تھا۔
قائداعظمؒ کی قیادت میں قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے اور علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے دینے والے علماء بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل نہیں تھے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
’’دِین مُلاّ فی سبِیل اللہ فساد‘‘
اور قائداعظمؒ نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں "THEOCRACY" (مولویوں کی حکومت) نہیں ہوگی اور وہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی مذہبی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق حاصل ہوں گے‘‘۔ شہاب الدین غوری 1193ء میں ہندوستان کے آخری ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر اجمیر میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی خدمت میں بہت سی دولت لے کر حاضر ہوا تو آپؒ نے کہا کہ یہ دولت بلالحاظ مذہب و ملت اجمیر کے لوگوں میں تقسیم کر دو!۔ غوری نے ایسا ہی کیا اور پوچھا۔ ’’حضور! کوئی اور حکم؟‘‘ تو خواجہ صاحب! نے کہا کہ ’’مقتول پرتھوی راج کے بیٹے گووند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!‘‘۔ غوری نے کہا کہ ’’حضور! وہ تو غیرمسلم ہے!۔ خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا کہ ’’اِس طرح مفتُوح ہندو قوم میں فاتح مسلمان قوم کے لئے وفاداری کے جذبات پیدا ہوں گے!‘‘۔ غوری نے گووند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈزل کو پاکستان کا وفاقی وزیرِ قانون بنایا تو یقیناً اُن کے ذہن میں بھی خواجہ غریب نوازؒ کا فلسفہ ہو گا۔
فرزندِ علامہ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم) نے اپنی خودنوشت ’’اپنا گریباںچاک‘‘ کے صفحہ 44 پر لکھا کہ ’’علامہ اقبالؒ نے مجھے وصیت کی تھی کہ ’’بعض فِرقوں کی طرف اِس واسطے مائل ہوتے ہیں کہ اُن فِرقوں کے ساتھ اُن کا تعلق پیدا کرنے سے دُنیوی فائدے ہیں لیکن میرے خیال میں وہ بڑا بدبخت انسان ہے جو صحیح دینی عقائد کو مادی فادے کی خاطر اسے قُربان کر دے۔ غرض یہ کہ طریقۂ اہلِ سنت محفوظ ہے اور اُس پر گامزن ہونا چاہیے لیکن آئمہ و اہلِ بیتؓ کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنا چاہیے‘‘۔ یہ تھا مصورِ پاکستان کا (ڈاکٹر جاوید اقبال کے لئے وصیت کے حوالے سے) متحدہ ہندوستان اور پھر قیام پاکستان کے بعد عام مسلمانوں کے لئے پیغام۔
’’اپنا گریباں چاک‘‘ کے صفحہ 28/27 پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا کہ ’’میری والدہ نے غشی کے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہا اور انہیں رات کو لاہور میں ’’بی بی پاک دامن‘‘ کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا‘‘۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ’’بی بی پاک دامن‘‘ خلیفۂ اسلام چہارم حضرت علیؓ کی بیٹی رقیہ کو کہا جاتا ہے اور عاشقِ رسولؐ اور آئمہ اہلِ بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنے والے حضرت علامہ اقبالؒ کے لئے اپنی رفیقہ حیات کے جسدِخاکی کو بی بی پاک دامن کے قبرستان میں دفن کر کے اپنے ایمان کے خطرے میں پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔
اب رہا بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کا عقیدہ؟۔ تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن ایڈووکیٹ آزاد بن حیدر نے اپنی تالیف۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سید سے قائداعظمؒ تک‘‘ کے صفحہ 1098پر۔ ’’قائداعظمؒ کے عقیدے کا مقدمہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’ہائی کورٹ سندھ و بلوچستان میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ شیریں بائی جناح کی طرف سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی جائیداد کے بارے میں داخل کی گئی درخواست کے مقدمے میں (اُن دِنوں) اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب شریف الدین پیرزادہ نے اپنی شہادت میں کہا تھے کہ ’’قائداعظمؒ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی بلکہ وہ ایک مسلمان تھے۔ میرٹھ میں مسلم لیگ کے کارکنوں نے جب قائداعظمؒ سے دریافت کیا کہ ’’آپ شیعہ ہیں یا سنی؟‘‘۔ تو قائداعظم نے فرمایا کہ ’’حضرت رسولِ اکرمؐ کیا تھے؟شیعہ یا سُنّی؟۔ میں تو آپؐ کا ہی پیروکار ہوں!‘‘۔
جنابِ آزاد بن حیدر کی تالیف کے مطابق ’’جنابِ پیرزادہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ ’’قائداعظمؒ نے جناب ظفرالملک کے ایک مکتوب کے جواب میں لکھا تھا کہ ’’حضرت علیؓ چوتھے خلیفہ اسلام تھے اور میں بھی جانتا ہوں کہ مسلمان شیعہ اور سُنّی ہونے سے قطع نظر 21 رمضان المبارک کو شہادت علیؓ کا دن مناتے ہیں‘‘۔
Back to Top