Wednesday, 12 October 2016

Hussain Tere behtar saron ko salaam written by Asar Chowhan


عام دِنوں میں بھی لیکن محرم کے دِنوں میں خاص طور پر مجھے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ بہت یاد آتے ہیں۔ میرے آبائواجداد کا تعلق اجمیر سے اور انہوں نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے دستِ مبارک پر ہی اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت خواجہ صاحب تبلیغ اسلام کے لئے ہندوستان تشریف لائے تو انہوں نے اہلِ ہند سے نواسۂ رسولؐ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’شاہ ہست حسینؓ، پادشاہ ہست حسینؓ
دین ہست حسینؓ، دین پناہ ہست حسینؓ
سرداد نداد، دست، در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالہ، ہست حسینؓ‘‘
یعنی۔ ’’ہمارے شاہ اور بادشاہ امام حسینؓ ہیں۔ دینِ اسلام اور دین کی پناہ بھی وہی ہیں۔ (انہوں نے دین کی بقاء کے لئے) اپنا سر قلم کرا لیا لیکن (خلافت کے نام پر) یزید کی ملوکیت کو قبول نہیں کیا۔ حقیقت میں امام حسینؓ کلمۂ طیبہ (اسلام) کی بنیاد ہیں‘‘۔ مجھے محرم کے دنوں میں یہ حدیث رسولِ مقبولؐ بھی یاد آتی ہے کہ ’’میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں‘‘۔ سانحۂ کربلا کے وقت کے علماء کے بارے میں پنجاب کے صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ نے کہا تھا۔
’’جے کر دین علم وِچ ہوندا
اٹّھاراں ہزار جے، عالم آہا
اوہ اگے حسینؓ دے، مَردے ہُو
جو کجھ ملاحظہ سَروَر دا کر دے
تاں خیمے، تمبُو، کیوں سڑ دے ہُو
پَر صادق دِین تِنباں دے باہُو
جو سرِ قُربانی، کر دے ہُو!‘‘
یعنی۔ ’’دینِ اسلام اگر عِلم میں ہوتا (تو میدانِ کربلا میں اہلِ بیتؓ) کے سَروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ (اُس وقت یزیدی سلطنت کے اندر) 18 ہزار عالم تھے۔ (انہوں نے یزیدیت کے خلاف بغاوت کر کے) حضرت حسینؓ پر اپنی جانیں قربان کیوں نہ کر دیں؟۔ اگر وہ علماء حق پرست ہوتے تو وہ آلِ رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اور اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی تابعداری اور اطاعت کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بیتؓ کا پانی کیوں بند کر دیتے؟ اے باہُو! جو لوگ سچے لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں، وہی دین کی حفاظت کرنے والے اور سچّے ہیں‘‘۔ ثابت ہوا کہ یزیدی دور میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل علماء نہیں تھے۔ جب امام حسینؓ اور اُن کے 72ساتھیوں کو شہید کیا جارہا تھا۔
قائداعظمؒ کی قیادت میں قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے اور علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے دینے والے علماء بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل نہیں تھے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
’’دِین مُلاّ فی سبِیل اللہ فساد‘‘
اور قائداعظمؒ نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں "THEOCRACY" (مولویوں کی حکومت) نہیں ہوگی اور وہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی مذہبی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق حاصل ہوں گے‘‘۔ شہاب الدین غوری 1193ء میں ہندوستان کے آخری ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر اجمیر میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی خدمت میں بہت سی دولت لے کر حاضر ہوا تو آپؒ نے کہا کہ یہ دولت بلالحاظ مذہب و ملت اجمیر کے لوگوں میں تقسیم کر دو!۔ غوری نے ایسا ہی کیا اور پوچھا۔ ’’حضور! کوئی اور حکم؟‘‘ تو خواجہ صاحب! نے کہا کہ ’’مقتول پرتھوی راج کے بیٹے گووند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!‘‘۔ غوری نے کہا کہ ’’حضور! وہ تو غیرمسلم ہے!۔ خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا کہ ’’اِس طرح مفتُوح ہندو قوم میں فاتح مسلمان قوم کے لئے وفاداری کے جذبات پیدا ہوں گے!‘‘۔ غوری نے گووند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈزل کو پاکستان کا وفاقی وزیرِ قانون بنایا تو یقیناً اُن کے ذہن میں بھی خواجہ غریب نوازؒ کا فلسفہ ہو گا۔
فرزندِ علامہ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم) نے اپنی خودنوشت ’’اپنا گریباںچاک‘‘ کے صفحہ 44 پر لکھا کہ ’’علامہ اقبالؒ نے مجھے وصیت کی تھی کہ ’’بعض فِرقوں کی طرف اِس واسطے مائل ہوتے ہیں کہ اُن فِرقوں کے ساتھ اُن کا تعلق پیدا کرنے سے دُنیوی فائدے ہیں لیکن میرے خیال میں وہ بڑا بدبخت انسان ہے جو صحیح دینی عقائد کو مادی فادے کی خاطر اسے قُربان کر دے۔ غرض یہ کہ طریقۂ اہلِ سنت محفوظ ہے اور اُس پر گامزن ہونا چاہیے لیکن آئمہ و اہلِ بیتؓ کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنا چاہیے‘‘۔ یہ تھا مصورِ پاکستان کا (ڈاکٹر جاوید اقبال کے لئے وصیت کے حوالے سے) متحدہ ہندوستان اور پھر قیام پاکستان کے بعد عام مسلمانوں کے لئے پیغام۔
’’اپنا گریباں چاک‘‘ کے صفحہ 28/27 پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا کہ ’’میری والدہ نے غشی کے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہا اور انہیں رات کو لاہور میں ’’بی بی پاک دامن‘‘ کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا‘‘۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ’’بی بی پاک دامن‘‘ خلیفۂ اسلام چہارم حضرت علیؓ کی بیٹی رقیہ کو کہا جاتا ہے اور عاشقِ رسولؐ اور آئمہ اہلِ بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنے والے حضرت علامہ اقبالؒ کے لئے اپنی رفیقہ حیات کے جسدِخاکی کو بی بی پاک دامن کے قبرستان میں دفن کر کے اپنے ایمان کے خطرے میں پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔
اب رہا بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کا عقیدہ؟۔ تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن ایڈووکیٹ آزاد بن حیدر نے اپنی تالیف۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سید سے قائداعظمؒ تک‘‘ کے صفحہ 1098پر۔ ’’قائداعظمؒ کے عقیدے کا مقدمہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’ہائی کورٹ سندھ و بلوچستان میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ شیریں بائی جناح کی طرف سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی جائیداد کے بارے میں داخل کی گئی درخواست کے مقدمے میں (اُن دِنوں) اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب شریف الدین پیرزادہ نے اپنی شہادت میں کہا تھے کہ ’’قائداعظمؒ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی بلکہ وہ ایک مسلمان تھے۔ میرٹھ میں مسلم لیگ کے کارکنوں نے جب قائداعظمؒ سے دریافت کیا کہ ’’آپ شیعہ ہیں یا سنی؟‘‘۔ تو قائداعظم نے فرمایا کہ ’’حضرت رسولِ اکرمؐ کیا تھے؟شیعہ یا سُنّی؟۔ میں تو آپؐ کا ہی پیروکار ہوں!‘‘۔
جنابِ آزاد بن حیدر کی تالیف کے مطابق ’’جنابِ پیرزادہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ ’’قائداعظمؒ نے جناب ظفرالملک کے ایک مکتوب کے جواب میں لکھا تھا کہ ’’حضرت علیؓ چوتھے خلیفہ اسلام تھے اور میں بھی جانتا ہوں کہ مسلمان شیعہ اور سُنّی ہونے سے قطع نظر 21 رمضان المبارک کو شہادت علیؓ کا دن مناتے ہیں‘‘۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top