Wednesday, 12 October 2016

سر راہے

سر راہے
جہانگیر ترین، چودھری سرور اور شیخ رشید طاہر القادری کو منانے لندن پہنچ گئے!

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر تحریک انصاف کے دو بڑے جہانگیر ترین اور چودھری سرور کے ساتھ عوامی مسلم لیگ کے تن تنہا لیڈر و کارکن شیخ رشید بھی ....
روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی
بات کرے نہ دیکھو مجھ سے ایسا ہے ہرجائی
کے مصرعے پر دھمال ڈالتے ہوئے لندن میں طاہر القادری کو منانے پہنچ گئے ہیں، جو رائے ونڈ دھرنے کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان سے رخت سفر باندھ کر یورپ چلے آئے تھے اور بڑے اہتمام سے فرما گئے تھے کہ میں کسی کے گھر کے باہر دھرنے کو درست نہیں سمجھتا۔
یوں دشتِ سیاست میں خان صاحب نے تنہا ہی رائے ونڈ میں جلسہ کیا جو کامیاب تھا بقول تحریک انصاف
والے لاکھوں کا سمندر اُمڈ آیا تھا۔ اب اس سمندر کے آگے طاہر القادری کی آب جو کی کیا حیثیت ہو گی تو پھر اسکے ترلے منتیں کرنے کا کیا فائدہ۔ صرف شیخ رشید کی خواہش پر خان، شیخ اور مولانا کی تکون مکمل کی جا رہی ہے حالانکہ تحریک انصاف تنہا ان سب پر بھاری ہے تو پھر یہ نوٹنکی رچانے کا کیا فائدہ؟ مولانا تو اپنے حصہ کی رقم کہہ لیں یا دیت لے کر اب مزید کیا لینے آئیں گے۔
٭....٭....٭....٭
میانداد کو ہمیشہ پیسوں کا مسئلہ رہا : آفریدی، بوم بوم میچ فکسر ہیں : میانداد!
پاکستان کرکٹ ٹیم کے دو سابق لیجنڈ جب مدمقابل ہوں گے تو ایسے ہی توانا و طاقتور حملے کریں گے ایک دوسرے پر، کسی اور کی کیا مجال جو وہ ان کے بارے میں ایسا کہے۔ زبان اور دہن بگڑنے کی بات تو شاید اب بہت پرانی ہو چکی، یہاں تو سرعام ایک دوسرے کے پیرہن تک نوچے جا رہے ہیں۔ شاید نئے دور کا، نئے خون کا، نئے ولولوں کا یہی تقاضا ہے، ادب آداب سب پرانے دور کی باتیں ٹھہریں۔ کہتے ہیں اور سُنا بھی ہے سب نے کہ سپورٹس مین شپ سے صبر و ضبط کا درس ملتا ہے مگر یہاں تو گلی محلے کے بچوں کی طرح ایک دوسرے پر دشنام طرازی کی جا رہی ہے اس کا عالمی کھیلوں کی تنظیموں پر کیا اثر جائے گا۔
پاکستان کرکٹ کے کھلاڑی پہلے ہی میچ فکسنگ اور میچ بیچنے کے الزامات کے سبب عرصہ دراز تک بدنامی کا شکار رہے ہیں اب پھر وہی پرانے بخیئے اُدھڑنے سے فائدہ کون اٹھائے گا۔ آفریدی ہوں یا میانداد ذاتی طور پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ملک و قوم کا ہی خیال رکھیں۔ کھیل کے میدان کو کراچی نہ بنائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ کسی بھی کھلاڑی کو اپنے کیرئر کے اختتام پر بھرپور الواداعی تقریب کا حق ہے جو ناخوشگوار نہیں خوشگوار طریقے سے ہونی چاہئے۔ لالہ جی بھی اس تقریب کو خوشگوار بنانے پر توجہ دیں۔ تاکہ انکے پرستار بھی....
او جانے والے میں تیرے قربان خدا حافظ
او میرے حسیں خوابوں کے مہمان خدا حافظ
کہہ کر انہیں رخصت کریں۔
٭....٭....٭....٭
وزیر خزانہ کو ایوارڈ سودی قرضوں کا کوہ ہمالیہ کھڑا کرنے پر دیا گیا ہے : سراج الحق!
ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ ملنے پر لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں دوسروں کی نسبت عمدہ کارکردگی پر یہ ایوارڈ ملا ہو گا مگر جناب سراج الحق نے ساری خوشی پر پانی پھیرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں آئی ایم ایف والوں نے یہ ایوارڈ بھاری سود پر بے تحاشہ قرضہ لینے کی وجہ سے دیا ہے۔ ویسے بات میں وزن تو ضرور ہے، جتنا قرضہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف و دیگر عالمی اداروں سے لیا ہے اتنا تو شاید کسی اور حکومت کی قسمت میں لکھا ہی نہ تھا۔ خدا جانے اتنے بھاری سود پر حاصل کئے گئے ان قرضوں کا کرنا کیا ہے۔ کیا یہ سب اپنے لئے لئے جاتے ہیں۔
ایک طرف حکومت کشکول توڑنے کے نعرے لگاتی ہے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ قرضوں پر قرضے لیتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر ان قرضوں کی بدولت عوام کا معیار زندگی بلند ہوا ہو، آمدنی میں اضافہ ہوا ہو، غربت میں کمی ہوئی ہو، افراط زر کم ہوا ہو، ملک ترقی کرتا نظر آ رہا ہو تو چلیں برداشت کر لیتے ہیں مگر ایسا ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آ رہا۔ بقول وزیر خزانہ‘ خزانہ بھرا ہوا ہے تو کیا اس خزانے کا اچار ڈالنا ہے۔ اس سے عوام کو فائدہ کیوں نہیں پہنچایا جا رہا۔ اگر 2018ءمیں نئی حکومت آئی تو اصل بھانڈا وہ پھوڑے گی کہ خزانہ ہمیں خالی ملا کیونکہ ہر آنے والی حکومت یہی کہتی ہے۔
٭....٭....٭....٭
سکھر میں سڑک کی ناقص تعمیر پر خورشید شاہ برہم، پتھر اٹھا اٹھا کر پٹختے رہے
نئے وزیراعلیٰ کی آمد کے ساتھ ان کے کراچی کے ہنگامی دوروں کے بعد لگتا ہے سندھ کے باقی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی ہوش آگیا ہے۔ وہ بھی اپنے وزیراعلیٰ کی تقلید میں ادھر ادھر طوفانی بگولوں کی طرح رقصاں نظر آنے لگے ہیں۔ ورنہ یہ سب پہلے قائم دائم سرکار میں انہی کی طرح صرف سوتے نظر آتے تھے۔ وزیراعلیٰ نے کل اگر طالب جوہری کی مجلس سنی‘ جامعہ بنوریہ گئے اور گرو مندر میں چاٹ کھائی تو اس کا مطلب یہ نہ لیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ ادھر سکھر میں پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سڑک کی ناقص تعمیر دیکھ کر گاڑی روکی اور نیچے اتر کر کام کرنے والوں کے خوب لتے لئے۔
اس موقع پر وہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرح خاصے خطرناک موڈ میں نظر آئے۔ سڑک کی ناقص تعمیر پر وہاں ڈالے گئے پتھر اٹھا اٹھا کر زمین پر پھینکتے رہے شکر ہے تعمیر کرنے والوں کے سرکا نشانہ نہیں لیا ورنہ بہت سے قومی خزانے کے لٹیرے اس سڑک کی گود میں دفن کرنا پڑتے۔ دیکھتے ہیں اب انکے غصے کا کیا اثر ہوتا ہے۔ سرکاری تعمیراتی اداروں کے اہلکاروں پر۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top