Showing posts with label Nusrat Javed (برملا). Show all posts
Showing posts with label Nusrat Javed (برملا). Show all posts

Monday, 17 October 2016

Siapa paroshi written by Nusrat Javed





سیا پا فروشی



کسی ”ٹھاکر“ کی موت پر ماتم کنائی کرنے والی کمّی عورتوںکی طرح ٹی وی سکرینوں پر سیاپا فروشی میں مصروف کلاکاروں کو نجانے کیوں احساس نہیں ہو رہا کہ وزیراعظم نواز شریف کو ”مودی کا یار“ قرار دینا ہی کافی سنگین الزام تھا۔ بات اس طعنے سے بڑھا کر جہاں لے جائی جا رہی ہے وہ ہمارے دشمن تو رہے ایک طرف، دیرینہ اور مخلص دوستوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گی۔
ہفتے کا سارا دن میری ٹھوس اطلاعات کے مطابق اعلیٰ ترین ریاستی اور سرکاری سطح پر چند ملاقاتوں کے بعد کچھ انتظامات طے کئے گئے ہیں۔ مجوزہ انتظامات، اس شور و غوغا پر قابو پانے میں کافی حد تک کارآمد

Friday, 14 October 2016

Har sahafi ko lifafa pukarna chor de written by Nusrat Javed


ہر صحافی کو لفافہ پکارنا چھوڑ دیں

ندھی نفرتوں اور عقیدت میں تقسیم ہوئے آج کے پاکستان میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگ بھی یہ بات بھول چکے ہیں کہ صحافت کا اصل مقصد ان حقائق کو منظرِ عام پر لانا ہوتا ہے جسے حکمران خلقِ خدا سے چھپانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ آج سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل ڈان کے Cyrilنے صرف یہی فریضہ سرانجام دیا تھا۔
بنیادی طورپر کراچی سے اسلام آباد آیا یہ صحافی ڈان کے لئے اداریے اور ہفتہ وار کالم لکھتا ہے۔قانون اور اقتصادیات کا ہونہار طالب علم رہا ہے۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے آکسفورڈ بھی گیا تھا۔ محنتی بندہ ہے۔ انگریزی بہت کمال کی لکھتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقروں کے ذریعے حقائق کو تڑختی گولیوں کی طرح برساتی زبان۔ رپورٹنگ اس کی بنیادی ذمہ داری البتہ ہرگز نہیں ہے۔
مئی 2013ءکے انتخابات سے پہلے چند دنوں کے دوران اس نے مختلف علاقوں میں جاکر یہ معلوم کرنا چاہا کہ خلقِ خدا کے دل میں کیا ہے۔ چند مخصوص حلقوں میں روایتی اور تاریخی طورپر انتخابات لڑنے اور جیتنے والے گھرانے اور دھڑے باز لوگ کیا چاہتے ہیں۔ مختلف شہروں اور دیہاتوں میں اپنے سوالات کا جواب ڈھونڈتے ہوئے سیرل، انتہائی دیانت داری سے یہ جاننے کی لگن میں بھی مبتلا رہا کہ عمران خان اور ان کی جماعت نے 1970ءسے طے ہوئی دھڑے بندی کو کس حد تک غیر متعلق بنادیا ہے۔
میں نے بھی انتخابی عمل کو جاننے کے لئے ایسی خجل خواری 1985ءکے انتخابات سے قبل کی تھی۔ اس دوران مختلف حلقوں کے بارے میں جو کچھ لکھا اسے محض رپورٹنگ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ ٹھوس معلومات،تھوڑی تحقیق،ایک خاص حلقے کے عوامی مزاج کی تصویر کشی اور جو کچھ دیکھا اور سنا ان سب کے تجزیے کو ملاکر جو مضمون نما شے بنی اسے ”رپورتاژ“ کہا جاسکتا تھا۔ پڑھنے والوں نے اس انداز کو بہت سراہا تھا۔
عمر کے اس حصے میں کچھ لفظ لکھ اور بول کر مناسب معاوضہ کماتے ہوئے باعزت روزی کمانے کے قابل ہوا ہوں تواس کی بنیادی وجہ وہ لگن اور محنت ہے جو ”رپورتاژ“ جیسی چیزیں لکھنے کے لئے میں نے 1980ءکے آغاز سے 90ءکی دہائی کے اختتام تک برقرار رکھی۔ ان دنوں میں صرف ”خلیفہ“ بن کر یہ کالم لکھتا اور ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اینکربنا”بھاشن“ دیا کرتا ہوں۔
سیرل نے ازخود مجھ سے رابطہ کرکے میرے ساتھ دوستی گانٹھی تھی۔ میرے ساتھ بہت عزت اور پیار سے اپنا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2013ءکی انتخابی مہم کے دوران اس نے مجھے اپنے ہمراہ مختلف حلقوں میں جانے پر کئی بار مجبور کیا۔ میں اکثر غچہ دے جاتا۔ صرف ایک بار اس کے ہاتھ لگا اور مردان اور پشاور میں تحریکِ انصاف کے جلسوں میں کھڑا ہوکر عمران خان کے پرستاروں سے Status-Quoکا حامی ہونے کے طعنے برداشت کرتا رہا۔
کئی مہینوں سے سیرل کے مجھ ایسے مداح اسے طعنے دے رہے تھے کہ وہ اس جوانی میں بھی ”خلیفہ“ بن گیا ہے۔ اداریے اور ہفتہ وار کالم لکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ اسے وقتاََ فوقتاََ گھر سے نکل کر خبریں ڈھونڈنا اور انہیں تجزیاتی انداز میں قارئین کے روبرو لاتے رہنا چاہیے۔ جمعرات کے دن اس کی جو خبر چھپی وہ مجھ ایسے کئی ”خیر خواہوں“ کی جانب سے سیرل کے اندر چھپے رپورٹر کو اُکساتے چلے جانے کا نتیجہ تھی۔
اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے اس معاشرے میں حقائق کو جانے بغیر سوشل میڈیا پر لیکن صحافیوں کی مسلسل مذمت میں مبتلا”باعلم وباصفا“ لوگوں کی اکثریت نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ سیرل نے جمعرات کے روز جو کچھ لکھا وہ نواز حکومت نے لکھوایا تھا۔ صحافیوں میں ”لفافے“ بانٹنے کی عادی یہ حکومت ”مودی کی یار“ہے۔ ”قومی مفادات“ سے زیادہ”اسے شریف خاندان کے کاروباری“ مفادات عزیز ہیں۔ پاکستان کے عسکری ادارے نواز حکومت کے اس رویے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔ اسی لئے وہ ان اداروں کو ”بدنام اور کمزور“ کرنے کے لئے ”بکاﺅ صحافیوں“ کو مسلسل استعمال کرتی رہتی ہے۔ بالآخر وہ وقت آگیا ہے کہ سیرل جیسے صحافیوںکو ECLپر ڈال کر تحقیقات ہو۔ ان لوگوں کا سراغ لگایا جائے جو ”لفافوں“ کی حرص میں مبتلا صحافیوں پر عسکری اداروں کو بدنام کرنے والی خبریں Plantکرتے ہیں۔
نواز حکومت سے وابستہ ”غداروں“ کی نشان دہی کرنے کو بے چین ہمارے باصفا اور محبِ وطن افراد کو یہ خبر ہی نہیں کہ جمعرات کے روز شائع ہونے والے PIECEکے بارے میں سب سے زیادہ پریشان پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب ہوئے تھے۔ سیرل کی لکھی تحریر کو اگر تعصب کی عینک اُتار کر پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اب تک اپنے بھائی اور عسکری قیادت کے درمیان ”پل“ سمجھے جانے والے ”شہباز صاب“اپنے زیر نگین صوبے کو اس صفائی اور ستھرائی سے بچانے کو بے چین ہیں جو پاکستان رینجرز نے سندھ میں رواں رکھی ہوئی ہے۔
اپنے ”پل“ والے امیج کو بچانے کے لئے ”شہباز صاب“ نے اپنی ذاتی نگرانی میں حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت کے ان تمام افسروں کو ہمہ وقت مصروف رکھا جو اخباروں میں تردیدیں چھپوانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نہیں تین بہت تگڑی تردیدوں کے ذریعے سیرل اور اس کے اخبار کے بخیے ادھیڑدئیے گئے۔ ”غداروں“ کی نشان دہی اور ان کو ”عبرت ناک سزائیں“ دلوانے کو بے چین باعلم وباصفا گروہ کے سینے مگر ابھی بھی ٹھنڈے نہیں ہوئے ہیں۔
ان سینوں کو ٹھنڈا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ 30اکتوبر آنے ہی والا ہے۔ اس دن عمران خان صاحب نے اسلام آباد کے لاک ڈاﺅن کا اعلان کررکھا ہے۔ ”امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت“ کے دارالحکومت کی اس روز تالہ بندی ہوگئی تو اس وقت تک ریاستی اور سرکاری امور نبٹائے نہیں جاسکیں گے جب تک نواز شریف استعفیٰ نہیں دیتے۔ نواز شریف سے استعفیٰ لے کر موجودہ اسمبلی سے نیا وزیر اعظم منتخب کروانا ناممکن ہے۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف کی صورت نظر آیا تھا۔
اسلام آباد کی ”تالہ بندی“ کے ذریعے نواز شریف کا استعفیٰ حاصل کرلیا گیا تو پاکستان پر ”جمہوریت“ کی جو تہمت 2008ءسے لگائی جارہی ہے وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ اکتوبر 1958، جولائی 1977اور اکتوبر 1999ءکی طرح ایک بار پھر ”تھوکوڑی“کہہ کر تختی کو صاف کرکے اسے گاچی کے ذریعے ”نیانکور“ بناکراس پر کوئی اور سکرپٹ لکھنا پڑے گا۔ نواز حکومت 2014ءکے دھرنوں کے دنوں سے خود پر ایک ”جمہوری حکومت“ کی تہمت لگواکر ایک کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کو تیار ہوچکی ہے۔ اس حکومت میں موجود کسی وزیر یا افسر میں یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ خواب میں بھی ایسی خبریں Plantکرنے کا سوچے جو سیرل نے لکھی ہے۔ اگر کسی ”خودکش“ نے یہ ہمت کر ہی لی تھی تو سیرل ہرگز ایسا رپورٹر نہیں جسے Calculated Leaksکے لئے استعمال کیا جاسکے۔
سوشل میڈیا کے عادی افراد کو نجانے وہ تصویر کیوں بھول گئی ہے جو سیرل نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر ان دنوں ڈالی تھی جب نواز شریف لندن اپنا علاج کروانے گئے ہوئے تھے۔ وہاں اپنا دل بہلانے وہ ایک سوٹ بنانے والے کی دوکان پر بھی چلے گئے۔ وہاں کے ڈیزائنر نے ان کے ساتھ اپنی سلفی بنائی اور اسے فیس بک پر ڈال دیا۔ سیرل نے وہاں سے یہ تصویر اچک کر اپنے اکاﺅنٹ کے ذریعے ہمارے سامنے لائی تو نواز شریف کی جماعت اور ان کا خاندان بہت ناراض ہوئے تھے۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ بیلوں کی درمیان لڑائی ہے۔ سیرل اسے منظر عام پر لے آیا ہے۔ اب مینڈک بنا اپنے کچلے جانے کا منتظر ہے۔ اسے ”عبرت ناک سزا“ کا نشانہ بنانے کے خواہش مند مگر اتنا سمجھ لیں کہ صحافت کا بنیادی فریضہ ان حقائق کو عیاں کرنا ہوتا ہے جو حکمران چھپانا چاہتے ہیں۔یہ بھی کہ صحافی کو غرض صرف خبر سے ہوتی ہے۔ صحافت کے دھندے میں لفافے بھی چلتے ہیں۔ خبریں پلانٹ ہوتی ہیں۔ ہر صحافی کو مگر پوری طرح جانے بغیر ”لفافہ“ پکارنا چھوڑدیں۔ صحافت کے تقاضے کی پہچان کریں۔ کسی بھی معاشرے کو جاندار اور توانا رکھنے کے لئے ان تقاضوں پر مکمل عمل درآمد ہونا بہت ضروری ہے۔

Wednesday, 12 October 2016

Imran Khan ka nishat paqat nawaz sharif written by Nusrat Javed

شہباز صاحب جیسا وفادار اور جاں نثار چھوٹا بھائی شایدہی کسی حکمران کو نصیب ہوا ہوگا۔ 1990ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن ہوا کرتے تھے۔ صدر ان دنوں اس مملکت کے غلام اسحاق خان تھے۔ انہیں بہت ایمان دار اور حب الوطنی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ریاستی امور کو قواعد وضوابط کے تحت چلانے کے عادی تھے۔ ایک خالص بیوروکریٹ جو خاموش رہتا اور فائلوں کے ذریعے گفتگو کرتا ہے۔ 
نواز شریف کو 1990ء کا الیکشن جیتنے کے باوجود اسحاق خان مرحوم ان دنوں کی 8ویں ترمیم کی بدولت ملے اختیارات کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم نامزد نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم ان کی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کی مشترکہ ترجیح تھے۔ مرحوم جنرل حمید گل جیسے لوگوں کی وجہ سے ان کے ذہن میں لیکن یہ بات ڈالی گئی کہ پنجاب سے ابھرے ایک متحرک اور صنعت کار گھرانے اور برادری سے تعلق رکھنے والے سیاستدان کو وزیر اعظم نہ بنایا گیا تو وہ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے-پنجاب-میں شکوے شکایات کے انبار لگادیں گے۔
غلام اسحاق خان، نواز شریف کو وزیر اعظم نامزد کرنے پر تقریباََ مجبور ہوئے تھے۔انہیں وزیر اعظم نامزد کرنے کے صرف 6ماہ بعد ہی مگر انہیں یہ خیال ستانا شروع ہوگیا کہ چوک ہوگئی ہے۔لاہور سے آئے صنعت کار کو جلد فیصلے کرنے کی عادت ہے۔ایسا کرتے ہوئے وہ افسر شاہی کے دکھائے قواعد وضوابط کی ہرگز پرواہ نہیں کرتے۔ جو بات دل میں سما جائے اسے پورا کرکے رہتے ہیں۔
نواز شریف کی ’’تیزی‘‘ نے ریاست کے دائمی اداروں میں موجود ’’محتاط‘‘ افراد کو پریشان کرنا شروع کیا تو Minus Oneکی بات چل نکلی۔ مطلب اس Minusکا صرف یہ تھا کہ 1990ء میں منتخب ہوئی اسمبلی قائم رہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی وہاں اکثریت بھی اپنی جگہ موجود رہے۔ صرف نواز شریف کی جگہ حکمران جماعت سے کوئی اور شخص وزیر اعظم بن جائے۔
صدر اسحاق کی خواہش تھی کہ جونیجو مرحوم جنہیں جنرل ضیاء نے خود نامزد کرنے کے بعد 1988ء میں برطرف کردیا تھا، نواز شریف کی جگہ لے لیں۔ جونیجو صاحب کا ذکر چلا تو پنجابی-سندھی والا سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ جونیجو صاحب نے حامد ناصر چٹھہ کو آگے کردیا۔ چٹھہ صاحب مگر بادشاہ آدمی تھے۔ دھڑے بندی کے فن سے قطعاََ نآشنا۔ خاندان کے اکلوتے اور لاڈلے۔
دریں اثناء بات چلی کہ داراشکوہ دکھتے نواز شریف کی جگہ شہباز صاب میں سے ’’اورنگ زیب‘‘ تلاش کرلیاجائے۔ شہباز صاب مگر یہ کردار ادا کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ غلام اسحاق خان نے نواز شریف اور ان کی اسمبلی کو فارغ کردیا۔ اس کے بعد نہ وہ ایوانِ صدر میں رہے اور نہ ہی نواز شریف وزیر اعظم ہائوس میں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو1993ء میں اس ملک کی ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئیں۔
شہباز صاب مگر اپنے بھائی کے وفادار تھے۔ پیپلز پارٹی سے نفرت کرتے تھے۔ کبھی بھول نہ پائے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے کاروبار کو قومیا لیا تھا۔شاہد حامد ان کے دوست تھے۔ یہ آج کے وزیر قانون زاہد حامد کے بھائی ہوا کرتے ہیں۔ شاہد صاحب ان دنوں کے صدر فاروق لغاری کے عزیز ترین دوست بھی تھے۔ شہباز صاب کو خبر ملی کہ لغاری صاحب محترمہ سے بدظن ہورہے ہیں۔محترمہ عابدہ حسین اور شاہد حامد کی وساطت سے ان تک پہنچ گئے۔ سردار فاروق لغاری نے محترمہ کی دوسری حکومت کو فارغ کردیا۔1997ء کے انتخابات ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ نواز شریف دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
اس سال مگر فیصلہ یہ بھی ہوا کہ شہباز صاحب قومی اسمبلی کا رکن بن کر اسلام آباد میں موجود رہیں گے تو سازشی عناصر ان میں سے ’’اورنگ زیب‘‘ برآمد کرنے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے۔ ان کی ذہانت، توانائی اور وطن سے بے پناہ محبت والے جذبے کو استعمال کرنے کے لئے انہیں اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کروالیا گیا۔
اسلام آباد میں اپنے تئیں کام کرتے نواز شریف نے مگر فاروق لغاری اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو دیکھتے ہی دیکھتے فارغ کردیا۔ اکتوبر 1998ء میں انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا۔ ان کی جگہ جنرل مشرف کو نامزد کیا۔جنرل مشرف نے مگرکارگل کردیا اور نواز شریف ایک بار پھر ریاست کے دائمی اداروں سے پنجہ آزمائی میں مشغول نظر آئے۔شہباز صاب اپنے بھائی کو بچانے کے لئے متحرک ہوئے تو انہیں کئی بار سمجھایا گیا کہ وہ اپنے خاندان اور حکمران جماعت پر Minus Oneکا اطلاق کرتے ہوئے خود وزیر اعظم کیوں نہیں بن جاتے۔ شہباز صاب مگر اپنے بھائی کے وفادار اور جاں نثار رہے۔ بالآخر 12اکتوبر 1999ء ہوگیا۔
اب 2016ء کا اکتوبر ہے۔ نواز شریف کا مزاج ویسا ہی ہے جیسا 1990ء سے 1993ء اور 1997ء سے 1999ء کے مابین دیکھنے کو ملا۔ ریاستِ پاکستان کے دائمی ادارے بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ان اداروں کی Institutional سوچ اور یادداشت ہوا کرتی ہے۔ یہ سوچ اور یادداشت نواز شریف کو مشکل سے برداشت کرپاتی ہے۔ انہیں کمزور کرنے کے لئے سازشیں کرنا ہوتی ہیں۔ ان سازشوں پر عمل پیرائی مگر کسی سیاستدان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حامد ناصر چٹھہ جیسے سیاستدانوں میں مگر کوئی خاص جان نہیں ہوا کرتی تھی۔
’’نیا پاکستان‘‘ اس لئے بھی خوش نصیب ہے کہ اسے عمران خان جیسے ہمہ وقت متحرک شاہین صفت رہ نمامل گئے ہیں۔ 30اکتوبر کو انہوں نے اسلام آباد کے Lock Downکا اعلان کررکھا ہے۔ خواہش ان کی فی الوقت Minus-Oneہی ہے۔
سادہ لفظوں میں مطالبہ صرف اتنا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر پانامہ لیکس کی وجہ سے اُٹھے سوالات کا جواب مہیا کریں۔ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو مسلم لیگ نون سے کوئی اور وزیر اعظم منتخب کروالیا جائے۔ایسا ہوجائے تو 2018ء تک قومی اسمبلی اور بقیہ صوبائی اسمبلیاں کام کرتی رہیں گی اور وہاں کی حکومتیں بھی۔ پاکستان بدستور ’’جمہوری‘‘ رہے گا۔ کسی تیسری قوت کی ضرورت نہیں رہے گی۔
عمران خان ’’جمہوری‘‘ دکھاوے کو تہس نہس کرنا چاہتے تو 30ستمبر کے دن لاہور میں جمع ہوئے ہجوم کو جاتی امراء لے جاکر خوب رونق لگاسکتے تھے۔ یہ رونق لگ جاتی تو شہبا زصاب بڑی مشکل میں گرفتار ہوجاتے۔ عمران خان نے مگر شہباز صاب کو اس مشکل میں گرفتار نہ ہونے دیا۔ ویسے بھی پانامہ لیکس میں ان کا نام تو آیا نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے کسی صاحبزادے کا۔ عمران خان کا نشانہ فقط نواز شریف ہیں۔
شہباز صاحب مگر اپنے بھائی کے وفادار اور جاں نثار ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے افراد کے ساتھ ’’بندے کا پتر‘‘ بن کر رہا جائے تو بچت ہوسکتی ہے۔ پیر کے روز انہوں نے اپنے بھائی سے ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر کچھ فیصلے کروالئے ہیں۔ جو ان کے خیال میں ’’بھائی جان‘‘ کو 30اکتوبر سے بچالیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
نجانے کیوں لیکن میرے وسوسے بھرے دل میں یہ خیال آئے چلا جارہا ہے کہ شہباز صاب میں سے اب ’’اورنگ زیب‘‘ برآمد کرنا ضروری ہوجائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ 30اکتوبر کے بعد نمودار ہوا’’اورنگ زیب‘‘ بھی شاید کوئی کام نہ آسکے۔ 30اکتوبر کا T-20،کپتان نے جیت لیا تو فیصلے صرف وہ کریں گے۔ کوئی داراشکوہ یا اورنگ زیب نہیں۔ وہ جیت گئے تو ہمیں دیکھنے کو بہادر شاہ ظفر ملیں گے۔ جس کے بعد کمپنی کی حکومت بھی نہیں رہی تھی۔معاملات حقیقی قوت وطاقت والوں نے براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے۔
Back to Top