Monday 17 October 2016

Siapa paroshi written by Nusrat Javed





سیا پا فروشی



کسی ”ٹھاکر“ کی موت پر ماتم کنائی کرنے والی کمّی عورتوںکی طرح ٹی وی سکرینوں پر سیاپا فروشی میں مصروف کلاکاروں کو نجانے کیوں احساس نہیں ہو رہا کہ وزیراعظم نواز شریف کو ”مودی کا یار“ قرار دینا ہی کافی سنگین الزام تھا۔ بات اس طعنے سے بڑھا کر جہاں لے جائی جا رہی ہے وہ ہمارے دشمن تو رہے ایک طرف، دیرینہ اور مخلص دوستوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گی۔
ہفتے کا سارا دن میری ٹھوس اطلاعات کے مطابق اعلیٰ ترین ریاستی اور سرکاری سطح پر چند ملاقاتوں کے بعد کچھ انتظامات طے کئے گئے ہیں۔ مجوزہ انتظامات، اس شور و غوغا پر قابو پانے میں کافی حد تک کارآمد
ثابت ہو سکتے ہیں جو ٹی وی سکرینوں پر انگریزی روزنامہ ڈان کے لئے سیرل المیڈہ کے لکھے ایک رپورتاژ کی اشاعت کے بعد برپا ہُوا نظر آ رہا ہے۔
سیاپا فروشی کے لئے ویسے بھی نیا مواد اکتوبر کی 20 تاریخ سے وافر مقدار میں مہیا ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس روز پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت پانامہ لیکس کے حوالے سے تیار کئے مقدمات کی سماعت شروع کر دے گی۔ اس سماعت کے دوران ہی اسلام آباد کی تالہ بندی کے لئے عمران خان صاحب اور ان کی تحریک انصاف خندقیں وغیرہ کھودنے میں مصروف دکھائی دیں گے۔ اسلام آباد کی تالہ بندی کے ذریعے نواز شریف سے استعفیٰ لے کر نہیں کٹہرے میں لانے کے مطالبے کی بنیاد پر جو ”انقلاب“ برپا ہونا ہے، وہ اپنے تئیں ایک تاریخی اور شاندار واقعہ ہو گا۔ اس کی لمحہ بہ لمحہ روداد سُنانا اور دکھانا بھی ضروری ہے۔ رونق ہی رونق۔کلاکاروں کی Ratings۔
اپنے گھر میں دنیا سے کٹ کر محصور ہوا میں بے چینی سے انقلاب کا منتظر رہوں گا۔ اس دوران ماضی کی چند یادیں آپ کے روبرو لانا ضروری سمجھ رہا ہوں۔ فوری طور پر یادوں کا جو ہجوم ہے وہ میری ایک رپورتاژ نما خبر ہے جو 1985ءکے اختتامی مہینے سے متعلق ہے۔
اس سال جنرل ضیاءنے ”غیر جماعتی“ بنیادوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروا کر انہیں بحال کیا تھا۔ ایم آر ڈی میں جمع ہوئی تمام جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے باوجود شہروں میں تو نہیں لیکن قصبات اور دیہات میں رائے دہندگان کی ایک کثیر تعداد نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دئیے۔
انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد سنڈھری سے آئے اس وقت تک تقریباً نامعلوم سیاستدان محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی مگر اس وزیراعظم نے اعلان کر دیا کہ ”مارشل لاءاور جمہوریت“ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسے نامزد کرنے والے یہ فقرہ سُن کر ہکا بکا رہ گئے۔ اس وقت کے طاقت ور ترین سیکرٹری اطلاعات - جنرل مجیب الرحمن- نے اس فقرے کو PTV کے نو بجے والے خبرنامے میں چلنے نہ دیا۔ رات کے دس بجے سے قبل ہی مگر ایک نئے اور ”کمزور“ وزیراعظم نے نفسیاتی جنگ کے ماہر گردانے اس جنرل کو اس عہدے سے فارغ کر دیا جو وہ جولائی 1977ءکے مارشل لاءکے بعد سے مسلسل سنبھالے ہوئے تھے۔
جونیجو مرحوم کا عزم تھا کہ 1986ءکی پہلی صبح مارشل لاءکے اختتام اور ایک جمہوری بندوبست کے ساتھ طلوع ہو۔ اس بندوبست کو یقینی بنانے کے لئے کابینہ کا جو اجلاس ہُوا اس کی تقریباً حرف بہ حرف روداد اس گنہگار کے ہاتھوں انگریزی اخبار The Muslim کے لئے لکھی گئی۔
کابینہ کے اس اجلاس میں سب سے زیادہ بحث اس سوال کے بارے میں ہوئی تھی کہ مارشل لاءکو مکمل طو پر اٹھانے کے بعد آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق بھی بحال کر دئیے جائیں یا نہیں۔ کابینہ میں شامل جنرل ضیاءکے لاڈلے اور ٹیکنوکریٹ وزراءجن میں صاحبزادہ یعقوب علی خان، ڈاکٹر محبوب الحق اور ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ بھی شامل تھے، بنیادی حقوق کی بحالی کے سخت مخالف تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ مارشل لاءکی چھتری سے نجات پا کر بنیادی حقوق کو بھی بحال کر دیا گیا تو ملک میں ہیجان برپا ہو جائے گا۔ 1985ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی تمام جماعتیں جلسے جلوسوں کے ذریعے ”بڑی مشکل سے“ بحال ہوئی جمہوری حکومت کو ”مستحکم“ نہیں ہونے دیں گی۔ جونیجو صاحب اور ان کے چند سیاسی رفقاءکا مگر اصرار تھا کہ دودھ میں مینگنیں نہ ڈائی جائیں۔ جمہوریت بحال ہونا ہے تو بنیادی حقوق کی یقین دہانی کے ساتھ بحال ہو۔
اس کابینہ کے اختتام کے بعد مَیں ”اچانک“ اس وقت کے ایک اہم وزیر قاضی عبدالمجید عابد کے گھر جا پہنچا۔ وہ سندھ کے ایک نامی گرامی صحافی رہے تھے۔1990ءمیں بڑی آن کے ساتھ نمودار ہوئی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے والد بھی تھے۔ 1985ءکے بعد قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو کر وہ اسلام آباد منتقل ہوئے تو یہاں ان کے دوست احباب بہت قلیل تعداد میں تھے۔ سورج ڈھلنے کے بعد وہ اپنے سٹڈی روم میں اکیلے بیٹھے اخبارات، جرائد یا کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہتے۔
انگریزی اخبار کا ایک متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے میں ان کے کافی قریب آ گیا۔ انہوں نے بھی اپنے تئیں مجھ میں ایک ”ہونہار صحافی“ ڈھونڈ کر مجھ پر شفقت فرمانا شروع کر دی۔ میری ان سے عاجزانہ عقیدت مگر انتہائی منافقانہ تھی۔ ایک صحافی ہوتے ہوئے انہیں کابینہ کے اجلاسوں کی روداد اپنے ہاتھ سے لکھنے کی عادت تھی۔ گھر لوٹ کر وہ فائلوں کے ایک انبار کے اوپر اپنے لکھے ہوئے نوٹس اپنی کرسی کے دائیں ہاتھ رکھی چھوٹی میز پر رکھ دیتے۔
میں ان کے ہاں جاتا تو بڑے خوش ہوتے۔ ملازم کو پکوڑے تیار کرنے کا حکم دیتے۔ ان مزے دار پکوڑوں کے مزید ذائقہ دار بنانے کا بندوبست بھی ہوجاتا۔ اسی دوران انہیں جو سرکاری فون آتے انہیں سُننے کے لئے قاضی صاحب اپنے بیڈ روم چلے جاتے جہاں ”گرین فون“ پڑا ہوتا تھا۔ بوڑھے آدمی تھے۔ گرین فون نہ بھی آتا تو انہیں اکثر غسل خانے بھی جانا پڑ جاتا۔ جیسے ہی وہ اپنے کمرے کو روانہ ہوتے میں لپک کر ان نوٹس کو تیزی سے پڑھنا شروع ہو جاتا جو انہوں نے کابینہ کے اجلاس کے دوران لئے ہوئے ہوتے تھے۔ کابینہ میں جو کچھ ہوا اسے حرف بہ حرف جاننے کے لئے ان کے ہاں دو گھنٹے گزارنا کافی تھا۔
ان سے ”اجازت“ لے کر میں چند دیگر وزراءپر نازل ہو جاتا اور اپنی خبر کی تصدیق وغیرہ کر کے اسے فائل کر دیتا۔ قاضی مرحوم اتنے نیک دل تھے کہ اکثر مجھ سے شکوہ کرتے کہ میں کابینہ کی روداد پوری لکھ ڈالتا ہوں۔ جونیجو مرحوم کی کابینہ کا کوئی وزیر یقیناً مجھے سب کچھ بتا دیتا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کو اس وزیر کا پتہ چلانا چاہیے۔ وہ اگرچہ خود بھی ایک صحافی ہوتے ہوئے مجھ سے میری ”سورس“ کے بارے میں نہیں پوچھیں گے۔
بہرحال میری بنیادی حقوق والی خبر چھپنے کے بعد ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ محمد خان جونیجوکو مجبور کر دیا گیا کہ وہ میری ”سورس“ کا پتہ چلانے کا حکم صادر کریں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا اصرار تھا کہ پاکستان جیسے حساس ملک میں جسے دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، ایسی کابینہ ”قومی مفادات کی نگہبانی“ نہیں کر سکتی جس کے وزراءاندر کی باتیں ”چھلنی کی طرح“ صحافیوں کے سامنے لے آتے ہیں۔
جونیجو مرحوم نے لکھ کر کوئی باقاعدہ حکم تو جاری نہیں کیا۔ صرف ٹیلی فون اٹھاکر اس وقت کے وزیر اطلاعات حامد ناصر چٹھہ کو بتایا کہ ”ڈاکٹر صاحبہ کو تسلی کے لئے سورس کا پتہ چلانا ضروری ہے“چٹھہ صاحب نے ایمان داری کی بات ہے کہ مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ میرے مدیر مشاہد حسین سید سے اپنی مشکل کا اظہار کیا۔ مشاہد صاحب نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی حامد ناصر چٹھہ کو بتایا کہ یہ معلوم کرنا کہ ان کے رپورٹر کو خبر کون دے رہا ہے ایجنسیوں کا کام ہے۔ بطور ایڈیٹر وہ اپنے رپورٹر سے پوچھ تاچھ صرف اس صورت کریں گے اگر اس کی لکھی کوئی خبر غلط ہو۔ غلط خبر کی نشان دہی کر دی جائے تو وہ اس پر سخت ترین کارروائی کا وعدہ کرتے ہیں۔
میری جان تو چھوٹ گئی۔ مرحوم اظہر سہیل کو - جنہوں نے اپنے اخبار کے لئے مجھ سے ملتی جلتی خبر لکھی تھی - مگر حامد ناصر چٹھہ کے روبرو پیش ہونا پڑا۔ تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اظہر سہیل نے بڑی سادگی سے ”اعتراف“ کر لیا کہ کابینہ کی باتیں انہیں اسلم خٹک مرحوم بتاتے ہیں۔ حقیقت جبکہ یہ تھی جنرل ضیاءکے قریبی مانے خٹک صاحب اظہر سہیل کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے تھے! اس کے بعد خٹک صاحب کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ کہانی پھر سہی۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top