Saturday 15 October 2016

London Plan....plan dhumkan written by Asar Chowhaan


لندن پلان۔۔۔۔فلان ڈھمکان؟

قیام پاکستان سے چند ماہ قبل کم سن ماسٹر مدن کی گائی ہوئی غزل بہت مقبول تھی جس کا مطلع تھا۔
”میرے دل میں آئیے، میری نظر میں آئیے!
دونوں گھر ہیں، آپ کے، چاہے جہاں کہیں جاہئیے!“
میں 1957ءمیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں فرسٹ ائیر کا طالبعلم تھا جب انگریزی کے پروفیسر جناب مختار محمود قریشی نے کسی انگریز شاعر کا مصرع یا مقولہ سنایا تھا کہ.... ” Live in my Heart and pay no rent“ 90ءکی دہائی میں کسی پنجابی فلم کے گیت کا یہ مکھڑا بہت مقبول تھا۔
”کنڈی نہ کھڑکا، سوہنیا سیدھا اندر آ“
پاکستان ”دولت مشترکہ“ میں شامل تھا تو حکومت برطانیہ نے پاکستانیوں کیلئے ”سیدھا اندر آ“ یعنی ”open door policy“ اپنا رکھی تھی۔ برطانیہ کے کسی بھی ائرپورٹ پر ”VISA“ مل جاتا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کے قائد انقلاب ماﺅزے تنگ نے اپنی مملکت کو ”Iron Curtain“ (لوہے کے پردے) سے ڈھانپے رکھا اور 1976ءمیں ”open door policy“ اپنا لی تھی۔ چین کے عوام نے پہلے سوشلسٹ معیشت کے فائدے اٹھائے اور پھر ”Free Economy“ سے ۔ برطانوی حکومت نے کمال یہ کیا کہ اپنے غلام ملکوں کو آزاد کر کے ”دولت مشترکہ“ کے جال میں جکڑ لیا اور اپنے آزاد کردہ ملکوں کے منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں کو ملکہ معظمہ کی کرسی کے برابر کرسیوں پر بٹھا دیا۔ جن سیاستدانوں کے خلاف اپنے اپنے ملکوں میں مختلف مقدمات تھے، انہیں سیاسی پناہ اور برطانوی شہریت دے کر دونوں ملکوں میں ”باعزت“ بنا دیا۔
تو معزز قارئین و قاریات! ان دنوں پاکستان کے سیاسی حلقوں، میڈیا اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے حوالے سے ”لندن پلان کا چرچا ہے۔ شاعر نے کہا تھا کہ....
”زینت حلقہ آغوش بنو!
دور بیٹھو گے تو چرچا ہو گا!“
علامہ طاہر القادری 2014ءمیں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت گرانے کیلئے عمران خان کے ”ہم دھرنا“ تھے اور ایک دن موصوف خان صاحب کو بتائے بغیر اپنا دھرنا ختم کر کے یہ جا اور وہ جا! 30 ستمبر کے رائے ونڈ مارچ میں القادری صاحب غائب تھے۔ بات یہاں تک گئی کہ خان صاحب نے میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ”میں نے کسی سے کوئی رشتہ تو نہیں مانگا تھا“۔ مختلف نیوز چینلوں پر عمران خان کی گفتگو سننے والے ناظرین حیران تھے کہ ”خان صاحب موقع بے موقع اپنے رشتے کی بات کیوں کرتے ہیں“؟ بہر حال القادری صاحب 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں مجوزہ دھرنے میں پلا نئیں پھڑا رہے تھے۔ لندن چلے آئے۔ عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد اور پاکستان تحریک انصاف کے دو قائدین (سابق گورنر پنجاب) چودھری محمد سرور اور جناب جہانگیر ترین علامہ القادری دی ٹور ویہندے ویہندے لندن آ گئے اور علامہ القادری کینیڈا چلے گئے اور فضا میں:....
”دے جا وے دے جا ویرا پلا پھڑائی“
کا نعرہ گونج رہا ہے لیکن ”لندن پلان“ کا کیا ہو گا۔ علامہ طاہر القادری کے جھنگوی دوست بابا ٹل چند لمحوں کے لئے میرے خواب میں آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”لندن پلان کیا ہے“؟ صرف ”فلان ڈھمکان“۔ اب میں ”فلان ڈھمکان“ کا مطلب کس سے پوچھوں؟ ستمبر کی دہائی کے شروع میں بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن سے ہمارے پختون لیڈر خان عبدالولی خان اور جناب بھٹو کے مخالف کچھ دوسرے پاکستانی سیاستدانوں کی ملاقات ہوئی۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اس ملاقات کو ”لندن پلان“ کا نام دیا۔ لندن کے لوگ عرصہ دراز سے لندن میں رہ کر اپنے اپنے ”پلان“ (منصوبے) بناتے رہے لیکن کسی نے بھی اسے مشکوک قرار نہیں دیا تھا۔ مولانا نیازی نے یہ تاثر دیا کہ ”لندن میں بنگلہ دیش کے صدر کے ساتھ حزب اختلاف کے سیاستدانوں کی ملاقات پاکستان کے خلاف یا کم از کم بھٹو صاحب کے خلاف کوئی سازش ہے“۔
جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے اور ہمارے دو سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطن۔ مئی 2006ءمیں دونوں لیڈروں نے لندن میں ”Charter of Democracy“ (میثاق جمہوریت) پر دستخط کئے تو جنرل پرویز مشرف نواز حلقوں نے اسے بھی ”لندن پلان“ کا نام دیا برطانوی شہری ”پاکستان بنانے والوں کی اولاد“ اردو سپیکنگ مہاجروں کی جماعت ایم کیو ایم کے قائد سے جب بھی کسی پاکستانی سیاستدان کی لندن میں ملاقات ہوئی تو اسے ”لندن پلان“ ہی کہا گیا۔
سال رواں میں مئی کے مہینے میں وزیراعظم نواز شریف لندن میں علاج درد دل کرایا۔ ان کے اہل خانہ بھی لندن میں ہی رہے اور وزیراعظم ہاﺅس کے بعض کارندے بھی۔ 30 مئی کو وزیراعظم صاحب نے لندن میں بیٹھ کر ”Video Link“ کے ذریعہ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل کی صدارت کی اور پس منظر کو نیوز چینلوں پر پاکستانی قوم بلکہ اقوام عالم نے دیکھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا۔ جو کچھ ہوا کھلے بندوں ہوا۔ وزیر اعظم صاحب کو اس پلان کو ”لندن پلان“ نہیں کہا گیا۔ کیونکہ بظاہر ان کی نیت نیک تھی۔ جناب عمران خان نے جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی، لندن میں ”Planning“ کی۔ اس کو ان کا ”لندن پلان“ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی ان کی طلاق کو یہ محض اتفاق ہے کہ جناب عمران خان اور .... ریحام خان نے لندن میں شادی کی پلاننگ کی اور پھر طلاق۔ اسے بھی لندن پلان نہیں کہا جا سکتا۔ وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے مختلف افراد کے نام پانامہ لیکس کے حوالے سے منظر عام و خاص پر آئے تو اسے بھی ”شریف خاندان کا لندن پلان“ کہا جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ علامہ طاہر القادری پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ملکہ الزبتھ دوم سے وفاداری کا حلف اٹھا کر کینیڈا کی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے دونوں بیٹے حسن محی الدین اور حسین محی الدین بھی اور وہ دونوں پاکستان عوامی تحریک کی ہائی کمان میں شامل ہیں۔
علامہ طاہر القادری کسی بھی ملک میں رہیں اور گھومیں پھریں ملکہ معظمہ سے وفاداری ان کا اخلاقی اور آئینی فرض ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کو ہم مسلمان بھی پیغمبر خدا مانتے ہیں علامہ القادری بھی مسلمان ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا تھا کہ ”کوئی بھی شخص دو آقاﺅں سے وفادار نہیں رہ سکتا“۔ عمران خان کے دونوں بیٹے سلیمان خان اور قاسم خان برطانوی شہری ہیں لیکن ان کا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جناب عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا اتحاد غیر فطری تھا اور غیر فطری رہے گا۔ القادری صاحب ”شیخ السلام“ ہیں اور عمران خان عام مسلمان۔ ”شیخ الاسلام“ کے ہاتھ میں فتوی فروشی کا ڈنڈا بھی ہے، جو عمران خان کے ہاتھ میں نہیں دسمبر 2012ءمیں پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کیلئے تشریف لائے تھے تو ”شاعر سیاست“ نے ان کیلئے کہا تھا....
اس کے دونوں ہاتھوں میں
”فتویٰ فروشی کا ڈنڈا ہے
بلوہ فتنہ، فساد، لڑائی
ہی اس کا ایجنڈا ہے
ارض پاک میں اس کو
اچھا لگتا نہیں، جمہوری نظام
ملکة الزبتھ کی رعیت ہے
بن بیٹھا، شیخ الاسلام“
6 اگست 2014ءکے دھرنے میں ”شیخ الاسلام“ نے کہا تھا کہ ”میں انقلاب لائے بغیر پاکستان سے نہیں جاﺅں گا اور بدعنوان لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا۔ خواہ ان کی تعداد لاکھوں کیوں نہ ہو جائے؟کیا عمران خان ”لندن پلان“ میں شیخ الاسلام کے اس ایجنڈے کو شامل کر لیں گے؟ مجھے تو بابا ٹل کا یہ موقف درست لگتا ہے کہ ”لندن پلان.... فلان ڈھمکان“!

No comments:

Post a Comment

Back to Top