Sunday 16 October 2016

Pakistan mai jamhoriat k naam par badchahat written Asar Chowhaan


پاکستان میں جمہوریت کے نام پے بادشاہت

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔ عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہو رہا ہے اور "GOOD GOVERNANCE" (اچھی طرزِ حکمرانی) کے نام پر "BAD GOVERNANCE" (بری طرزِ حکمرانی)۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس لاہور ’’میٹرو ٹرین کیس‘‘ کی سماعت کے دوران دیئے اور کہا کہ میٹرو ٹرین منصوبے سے ہمارے تاریخی ورثوں کو مٹایا جارہا ہے۔ لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت سوچنا چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ایک انگریز جج نے کہا تھا کہ جو لوگ ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں انہیں
بھگتنا بھی پڑتا ہے‘‘۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کے یہ ریمارکس محض حکومت پنجاب کے لئے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے لئے بھی ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے‘‘۔ لاہور میں تاریخی ورثے زیادہ تر وہ عمارات ہیں جو مغل اور دوسرے بادشاہوں کے ادوار میں تعمیر کرائی گئی تھیں۔ میرا سادہ سا سوال ہے کہ ’’موجودہ دور کے ہمارے بادشاہ لوگ اپنے سے پہلے بادشاہوں کی عمارات (اور جذبات) کا احترام کیوں نہیں کرتے؟۔ آگرہ کا تاج محل مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی چہیتی ملکہ ممتاز محل کی یاد میں بنوایا تھا۔ معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔
’’اِک شہنشاہ نے، دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘‘
اگر شاہ جہاں تاج محل تعمیر کرا کے غریبوں کی محبت مذاق اڑا سکتا تھا تو پاکستان کے بادشاہ لوگ ’’جمہوریت کے نام پر‘‘ عوام کا مذاق کیوں نہیں اڑا سکتے؟۔ انفارمیشن گروپ کے سینئر اور بہت ہی زیادہ پڑھاکو آفیسر پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد مرزا شجاع الدین بیگ امرتسری تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ انہیں اپنے دوستوں کو مغل بادشاہوں کی تعمیرکردہ عمارات پر پکنک پر لے جانے کا شوق تھا۔ میں نے مرزا صاحب کی مہمان نوازی میں پاکستان کا وہ تاریخی ورثہ بار بار دیکھا۔ ایک دن مرزا شجاع الدین بیگ ہندوستان کے غیر مغل بادشاہ سلطان قطب الدین ایبک کے مزار پر بھی دوستوں کو لے گئے تھے۔ لاہور میں سلطان قطب الدین ایبک کے علاوہ مغل بادشاہ نورالدین جہانگیر اور اس کی چہیتی ملکہ ’’نور محل‘‘ المعروف نورجہاں کا بھی مزار ہے۔ ملکہ نورجہاں نے گلاب کا عطر ایجاد کیا تھا اور وہ شاعرہ بھی تھی۔ اس نے اپنے لئے اور اپنے بعد میں آنے والی ملکائوں اور بادشاہوں کے لئے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ۔
’’بَر مزارِ ما غریباں، نے چراغ نے گُلے!‘‘
یعنی۔ ’’ہمارے مزار پر کوئی بھی چراغ جلانے یا پھول چڑھانے کے لئے نہیں آتا‘‘۔ پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر کے آرمی چیف محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈیٹر مقرر کر دیا تھا۔ 20 دن بعد جنرل ایوب خان نے معزول صدر سکندر مرزا کو جلاوطن کر دیا۔ سکندر مرزا بعدازاں ایران کے شہر مشہد میں دفن ہوئے یعنی۔ ’’دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘۔
پاکستان کے مرحوم حکمرانوں میں سے صرف ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزاروں پر اس طرح چراغ جلائے اور پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ اِس لئے کہ یہ قبریں پاکستان پیپلزپارٹی کا ’’ووٹ بنک‘‘ ہے لیکن ووٹوں کی کرنسی بہت ہی کم رہ گئی ہے۔ اِن کے علاوہ پاکستان کے کسی بھی مرحوم حکمران کی قبروں / مزاروں پر ان کی اولاد بھی نہیں حاضری دیتی۔ حالانکہ وہ قبریں اور مزار بھی (غیرشرعی طور پر) ہمارا ’’قومی ورثہ‘‘ ہے اور اِس قومی ورثہ کی حفاظت کی ذمہ داری وفاقی یا کسی صوبائی حکومت کی نہیں ہے۔
فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دور میں چیف جسٹس جناب محمد رستم کیانی (ایم۔آر۔کیانی) اپنی تقریروں اور تحریروں میں فوجی آمریت کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ بڑے بڑے طنز نگاروں سے بازی لے گئے تھے۔ اُن کے انداز سے اس شعر کی کوئی "VALUE" نہیں رہ گئی تھی کہ۔
’’کودا تیرے کوچے میں کوئی دَھم سے نہ ہو گا
جو کام ہوا ہم سے وہ رُستم سے نہ ہو گا‘‘
جناب محمد رستم کیانی کی تقریروں کے ایک انتخاب کا نام تھا "A JUDGE MAY LAUGH" (ایک جج بھی ہنس یا ہنسی اڑا سکتا ہے)۔ کئی جج صاحبان نے اپنے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات پر شدید غم کا اظہار کیا (نوحہ پڑھا) لیکن کسی نے بھی "A JUDGE MAY LAMENT" کے عنوان سے کتاب نہیں لکھی۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری، وردی سمیت صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں ڈٹ گئے تو قوم نے انہیں اپنا ہیرو بنا لیا۔ جنرل مشرف صاحب نے انہیں اور ان کے کئی ساتھیوں کو گھر بھجوا دیا۔ ان کی بحالی کی تحریک کامیاب رہی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کو وردی اتار کر اپنے گھر جانا پڑا۔ اب موصوف امریکہ کے کسی گھر میں ہیں لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ’’ازخود نوٹس پارٹی‘‘ ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔
"BIBLE" کے ’’عہد نامہ عتیق‘‘ BOOK OF JUDGES کے مطابق بنی اسرائیل پر پانچ سو سال تک "JUDGES" (قبائلی بزرگوں) کی حکومت رہی۔ پھر سب نے مل کر دعا مانگی کہ ’’اے ہمارے خدا ہمارا بھی کوئی بادشاہ بنا دے!‘‘ چنانچہ 2234 قبل از مسیح حضرت بن یامین کی اولاد میں سے "SAUL" (سائول) کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ میں نے پانچویں جماعت میں یہ شعر پڑھا تھا۔
’’کسی کو تاجِ سلطانی، کسی کو بھیک دردر دے!
میرے مولا تیری مرضی، جدھر چاہے اُدھر کر دے!‘‘
قائداعظم اور اُن کے بعد جتنے بھی صدور، فوجی سویلین، مارشل لاء ایڈمنسٹر اور وزرائے اعظم آئے اور چلے گئے، وہ اللہ کی مرضی تھی۔ اگر ان سے کسی نے "DIV'' RIGHT O KINGs" کے تحت بادشاہت قائم کر لی تو اُس کی مرضی۔ اِس کا فیصلہ ’’داورِِ محشر‘‘ (قیامت کے دن انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ) پر کیوں نہ چھوڑ دیا جائے؟
بادشاہوں، جمہوری حکمرانوں اور عام گنہگار انسان کی حمایت میں کسی بہت ہی نیک شاعر نے کہا تھا۔
’’کہہ دیں گے ہم یہ، داورِ محشر کے رُوبرو
ہم نے گناہ کئے، تیری رحمت کے زور پر‘‘
بہرحال پاکستان کے جمہور کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ موصوف نے جمہوریت اور بادشاہت میں فرق بتایا۔ اِس معاملے میں ہمیں میٹرو ٹرین کے منصوبہ سازوں کا بھی ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے لاہور کی یادگار عمارتوں (قومی ورثہ) کو ٹھکانہ لگانے کا نہ سوچا ہوتا تو چیف جسٹس آف پاکستان ’’جمہوریت کو بادشاہت کا سرٹیفکیٹ کیسے دیتے‘‘؟۔ موصوف اِس سے پہلے بھی اِس طرح کے سرٹیفکیٹس جاری کرتے رہے ہیں۔ 3 نومبر 2015ء کو چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کو سینٹ کی ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا۔
میاں صاحب نے انگریزی میں خطاب کیا تھا لیکن چیف جسٹس صاحب نے اردو زبان میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بدعنوانی پر استوار کلچر سے لاقانونیت فروغ پا رہی ہے۔ قوانین بہت زیادہ ہیں لیکن اُن پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ 80 فیصد تنازعات کا فیصلہ جرگوں سے ہو رہا ہے۔ ملک میں کارکردگی جانچنے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ انصاف کی فراہمی کا معیار بھی غیرتسلی بخش ہے۔ حکومت قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ عوام سے بالا بالا ہی بالائی طبقے آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں‘‘۔ اگر بالائی طبقے عوام سے بالا ہی بالا آپس میں اتحاد کر لیں تو عوام اُن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ اور چیف جسٹس آف پاکستان بھی اپنے نیک مشوروں سے ہی نواز سکتے ہیں۔ مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پاکستان کے ہر حکمران کو دیا تھا کہ۔
’’قوتِ عشق سے، ہر پست کو بالا کر دے!
دہر میں اِسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے!‘‘
لیکن بادشاہ لوگ ’’ہر پست کو بالا‘‘ کرنے لگیں تو اُن کی بادشاہت کیسے قائم رہے گی۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے تھے۔ صدر زرداری کے دور میں 50 فیصد اور وزیر خزانہ جناب اِسحاق ڈار کے اقبالی بیان کے مطابق یہ تعداد 60 فیصد ہو گئی ہے اور ڈار صاحب بڑے فخر سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان میں زرِمبادلہ کے ذخائر تاریخ میں سب سے اونچی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ جمہوریت ہو یا بادشاہت نچلی سطح کے لوگوں کا اِس سے کیا واسطہ؟

No comments:

Post a Comment

Back to Top