Saturday 15 October 2016

Mutanazigha Speaker world columnist club karwani yakjahti written by Ajmal Niazi


متنا زعہ سپیکر ورلڈ کالمسٹ کلب کاروان یکجہتی
جب کوئی ایک بھی ممبر اسمبلی کہہ دے کہ میں سپیکر کو نہیں مانتا تو اسے اپنے منصب کے جواز کا ضرور سوچنا چاہئے۔ چیف جسٹس کی اس بات پر بھی غور کریں کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔ اس بادشاہت میں نواز شریف کے نزدیک ایاز صادق یعنی سپیکر کی کیا حیثیت ہے؟ معلوم ہو جائے تو چیف جسٹس پاکستان کو آگاہ کر دیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ عمران خان نے پہلی بار ایاز صادق کے لئے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اپنی نشست سے نااہل ہونے کے بعد وہ دوسری بار الیکشن لڑ کر پھر سپیکر ہوئے۔ انہیں دوبارہ سپیکر نہیں بننا چاہئے تھا۔ سرکاری جماعت میں کئی لوگ ایاز صادق سے بڑھ کر ہوں گے۔ وہ نواز شریف کے لئے بھی فرماں بردار ہوں گے مگر شاید نواز شریف اس لئے ایاز صادق کے لئے بضد ہیں کہ عمران خان ن
ے ان کی مخالفت کر دی ہے۔
پوری تحریک انصاف ایاز صادق کو سپیکر نہیں مانتی اس کا مطلب ہے کہ ایوان کا ایک حصہ ان پر معترض ہے۔ کیا ہوا کہ عمران خان ایاز صادق کے خلاف ہو گئے ہیں۔ ایک آدمی کا الیکشن ہی قابل اعتراض تھا تو اسے الیکشن نہیں لڑنا چاہئے تھا۔ سرکاری جماعت کو اس کے علاوہ کسی کو ٹکٹ دے دینا چاہئے تھا۔ وہ یقیناً جیت جاتا۔ ایاز صادق کو بھی مسلم لیگ ن نے جتوایا ہے۔ ایاز کے پاس ٹکٹ نہ ہوتا تو وہ علیم خان کے مقابلے میں جیت نہ سکتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ایاز صادق کو جتوایا گیا۔ انہیں دوبارہ سپیکر بنوانا نواز شریف کی بہت بڑی غلطی ہے؟ ہمارے ہاں کبھی بھی سپیکر کا منصب غیر جانبدار نہیں رہا۔ اب انتہا ہو گئی ہے۔ سپیکر ہوتے ہوئے ایاز صادق جس تسلسل کے ساتھ اور جس جانبداری سے تقریریں کر رہے ہیں یہ سپیکر کے منصب کے شایان شان نہیں ۔ ہمارے ہاں سپیکر اور صدر وزیراعظم کا خاص آدمی ہوتا ہے مگر صدر زرداری کامیاب صدر تھے اور سپیکر مرزا صاحبہ بھی بہت مناسب تھیں۔
کہہ دیا گیا کہ ہم ایاز صادق کو سپیکر نہیں مانتے تو باقی کیا رہ گیا ہے۔ ایاز کا انتخاب ہی کالعدم ہو گیا تھا تو وہ سپیکر بھی نہیں تھے؟ دوسری بار الیکشن میں پہلے امیدواروں کو امیدوار نہیں ہونا چاہئے؟ قانونی طور پر یہ شرط رکھ دینا چاہئے۔
مگر ہمارے ہاں تو متنازعہ ہونے کے باوجود الیکشن لڑا جاتا ہے یہ مذاق ہے؟ دوسری بار منتخب ہونے کے بعد یہ تاثر ہو گا کہ خدانخواستہ عدالتی فیصلہ غلط تھا۔ عدالتی فیصلے کے باوجود لوگ اسے منتخب کرتے ہیں تو پھر عدالتوں کی کیا ضرورت ہے۔ ہر مقدمے کے لئے عوامی عدالت لگائی جائے اور اس ملک میں الیکشن ہی ہوتے رہیں۔
سپیکر پورے ایوان میں ایسا شخص ہوتا ہے جو سب سے کم بولتا ہے مگر ایاز صادق بولے چلے جا رہے ہیں۔ ایاز صادق خود کسی کی سنتے ہی نہیں دوسری بار الیکشن کا مطلب ہی یہ ہے کہ پہلی بار الیکشن میں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔
مظلوم کشمیریوں کے لئے اور ظالموں کے خلاف ڈٹ جانے والی افواج پاکستان کے لئے زبردست مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ ناصر اقبال خان رابعہ رحمان اور سردار مراد علی خان قیادت کر رہے تھے۔ ان تینوں نے تقریر بھی کی۔ اگر بزدل بھارت نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو سارے کالم نگار پاک فوج کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ذوالفقار راحت بھی موجود تھے۔ برادرم شفیق الرحمن کو ناصر اقبال نے چیئرمین بنایا ہے مگر وہ ورلڈ کالمسٹ کلب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے برادرم عثمان نے مجھے رپورٹ بھیجی ہے کہ وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے مابین ہم آہنگی اور مکالمے کی فضا پیدا کرنے کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے کاروان خیر سگالی اور قومی یکجہتی کے نام سے ایک وفد کو لاہور میں مدعو کیا۔ صوبہ سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان اور چترال سے تعلق رکھنے والے 40 طلبہ و طالبات اور 10 اساتذہ کرام پر مشتمل یہ وفد 2 اکتوبر کو ہفت روزہ مطالعاتی دورے پر لاہور پہنچا۔ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ تمام صوبوں کے نوجوانوں کو ایک دوسرے کے خیالات و تاثرات جاننے کا موقع مل سکے۔ وفد کی ملاقات اہم لوگوں سے کرائی گئی۔ اہم قومی اداروں اور عمارتوں کی وزٹ بھی جس میں شامل تھی۔ صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس محبوب، ڈاکٹر رفیق احمد، میاں فاروق الطاف، خواجہ احمد حسان، مجیب الرحمن شامی، عطاء الرحمن، ڈاکٹر صفدر محمود، افتخار علی ملک، ادیب جاودانی، پیر اعجاز ہاشمی، میاں سلمان فاروق سے ملاقاتوں میں بچوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مادر ملت پارک کی سیر کی۔ یادگار شہید پر فاتحہ خوانی بھی کی۔
برادرم میاں فاروق الطاف نے تجویز دی ہے اور یہ بہت اہم بات ہے کہ کراچی شہر سندھ کا کیپیٹل نہیں ہونا چاہئے یہ شہر ناقابل برداشت حد تک وسیع و عریض ہو گیا ہے۔ سندھ کیپیٹل کراچی سے کچھ دور بنانا چاہئے۔ وہاں صرف سرکاری عمارتیں ہوں کوئی پرائیویٹ بلڈنگ نہ ہو۔ کسی عمارت پر دوسری بلڈنگ نہ ہو۔ میاں صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آبادی بڑھ جائے تو اس کے ساتھ بستیاں بسائی جائیں۔ ہم نے دانش رسولؐ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ آخر میں صدر پاکستان ممنون حسین کا یہ بیان پڑھ لیں۔ میں نے بھارت کو دھمکیاں ’’وٹس اپ‘‘ کر دی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top