Monday 17 October 2016

Operation Zarb e Azab written by Ajma Niazi






آپریشن ضرب غضب اور آپریشن ضرب غضب


بہترین وزیر خارجہ کے طور پر اسحاق ڈار کے لیے جعلی خبریں لگوانے والے جواب دیں مگر کسے جواب دیں؟ جناب اسحاق ڈار پہلے ہی ڈاروں وچھڑی کونج کی طرح ہیں۔ اب یہ مخالفین کی طرف سے کیا گونج ہے۔ انہیں اسحاق ڈار سے ایسا مذاق کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ مگر یہ اختیار تو اسحاق ڈار کے اپنے پاس ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں کوئی بات کرنے والے؟ ہمارے پاس تو
بے اختیاری ہے‘ بے خبری اور بے اختیاری میں آج کل بہت کم فرق ہے؟ 
مینوں لگ گئی بے اختیاری
نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ تنقید اسحاق ڈار پر ہوتی ہے اور ہمارے ہاں تنقید اور تعریف بے سبب نہیں ہوتی۔
مگر اس میں لگتی ہے ’’دولت‘‘ زیادہ ۔
ڈار صاحب نواز شریف کے سمدھی ہیں مگر ان کی بہو نواز شریف کی یہ بیٹی بہت گمنام ہے۔ جس طرح نواز شریف کے دوسرے سمدھی یعنی مریم نواز شریف کے سسر بہت گمنام ہیں۔
خبر کے لیک ہونے پر چودھری نثار علی خان بہت پریشان ہیں۔ وہ میرے پسندیدہ وزیر اور سیاستدان ہیں۔ اس لیے میں بھی پریشان ہوں۔ نجانے کیوں نواز شریف بظاہر پریشان نہیں لگتے۔
خبر وزیراعظم ہائوس سے لیک ہوئی ہے تو چودھری صاحب کی پریشانی کچھ کم ہوئی ہے۔ مگر بھارت میں اس کے لیے کیوں جشن منائے جا رہے ہیں؟ وہ تو پاکستان میں کسی وزیر کی چھینک بھی آ جائے اور وہاں وزیراعظم بھی موجود ہوں تو بھارت میں جشن منانا اور چھینکوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے مگر یہ معاملہ واقعی سیریئس ہے۔
فوج پوچھ رہی ہے خبر کس نے لیک کی اور فیڈ کی؟ اب کیا ہو گا۔ کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔ ن لیگ کے ظفر علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ سوال پوری قوم کا ہے۔ پوری فوج کا ہے۔ لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ مسلم لیگ اور ن لیگ میں کیا فرق ہے؟ جب تک مسلم لیگ ن نہ کہا جائے تو پتہ نہیں چلتا کہ کس مسلم لیگ کی بات کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ پریشان بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن (نون غنہ) نہ بن جائے۔ ہم ن لیگ اور چودھری نثار کے لیے دعا گو ہیں۔ مگر اب تو ہماری بددعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔
میں نے کل لکھا تھا کہ چودھری نثار سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہیں مگر یہ پُل ٹوٹنے سے پہلے ’’کڑکڑ‘‘ کررہا ہے۔ اللہ سیاست کے اس پُل کو ٹوٹنے سے بچائے اور جس دریائے سیاست پر یہ پُل ہے اسے بھی رواں دواں رکھے۔ آمین۔
چودھری نثار دبنگ آدمی ہیں مگر وہ انکوائریاں شروع کرانے کا صرف اعلان کرتے ہیں کوئی انکوائری اب تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ کوئی فیصلہ کرتا ہی نہیں۔ صرف فاصلے بڑھائے جارہے ہیں۔ کوئی بتائے کہ فیصلے اور فاصلے میں کیا فرق ہے؟ شاہ صاحب نے کہا کہ اس انکوائری کا فیصلہ تو ہوگا۔ ہونا چاہیے ورنہ نقصان ہوگا۔ ہم ہمیشہ نقصان کی بات کرتے ہیں۔ فائدے کی بات بھی اب نہیں ہوتی۔
اکرام سہگل کہتے ہیں اب قوم سیریس ہے اور فوج بھی سیریس ہے۔ حکومت کو ایکشن لینا چاہئے۔ ورنہ کوئی اور ایکشن لے گا ری ایکشن بھی ہوسکتا ہے۔ ابھی تک صحافیوں میں سے برادرم مظہر عباس کوئی اظہار کر رہے ہیں۔ اظہار نہیں ہوگا تو مظاہرہ ہوگا۔
ایک توباخبر ذرائع ہمیں لے ڈوبے ہیں اس کے بعد جو دل میں آئے کہہ دیں۔ بات اس طرح کسی اور کے ذمے لگا دی جاتی ہے۔اس کا پتہ آج تک تو نہیں چلا۔ شاید اب پتہ چل جائے۔ پتہ چلا ہے کہ ’’بے خبر ذرائع‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ کام لیا جاتا ہے جو حکومت ان ’’معاملات‘‘ میں پھنسی ہوئی ہو وہ فلاح و بہبود کا کیا کام کرے گی۔ اس حکومت کے وزیرداخلہ کیا کہتے ہیں۔ وہ وزیراعظم کے بعد سب سے اہم اور بڑے وزیر ہوتے ہیں۔
یہ بات کن ذرائع سے لیک ہوئی یہ کہ بلوچستان میں بھارت کی ’’را‘‘ کارروائیاں نہیں کررہی ہے۔ پاک فوج خود کارروائیاں کررہی ہے؟
مولانا فضل الرحمن نے بہت پہلے کہا تھا کہ فاٹا میں اور شمالی وزیرستان میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کام نہیں کررہی۔ فاٹا اور شمالی وزیرستان کے عام لوگوں کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے تو پھر مولانا کی خدمت میں عرض ہے کہ اس آپریشن کو آپریشن ضرب عضب کہا گیا تھا۔ یہ تو آپریشن ’’ضرب غضب‘‘ نکلا ۔ جو آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ضرب غضب میں فرق نہیں کرسکتے۔ ان کے لئے کیا کہا جائے؟میں نے مذاق مذاق میں کہا تھا۔ جو کسی پہلے کے کسی کالم میں شائع ہوگیا تھا جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاوہ ایک سرکاری وزیرستان بھی ہے۔ وہاں کب آپریشن ہوگا؟ اسے کونسا آپریشن کہا جائے گا ۔ کالم لکھتے لکھتے یہ اہم خبر آئی کہ چودھری نثار نے خبر لیک کرنے کی انکوائری سے خود الگ کرلیا ہے۔ وہ الگ تھلگ کب ہونگے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top