Sunday 16 October 2016

Bras nikalni wali biwiyo k shohar hoshiyar bash written by Zafar ali Raja


بھڑاس نکالنے والی بیگمات کے شوہر ہوشیار باش
کیا دل کی بھڑاس لگنے سے سرطان جیسا موذی مرض لاحق ہو سکتا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے اور اس کے جواب پر ان ہزاروں ’’شوہرانِ باوفا اور خاوندان باصفا‘‘ کی زندگیوں کا دارومدار ہے جو ہمہ وقت دلوں سے نکلنے والی بھانت بھانت کی بھڑاسوں کی زد میں رہتے ہیں۔ اس اہم سوال کا جواب تلاش کرنے سے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ بھی بتاتے چلیں یہ عجوبۂ روزگار سوال آخر ہمارے جیسے کند ذہن شخص کے ذہن میں کیسے آیا اگر اس کا پورا پس منظر ذہن نشین ہو جائے تو دوسرے کند ذہن بھی ذہن پر زور دئیے بغیر بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔دراصل یہ نیا ٹنٹا برادر اسلامی ملک انڈونیشیا کے
ایک ڈاکٹر صاحب نے کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ سرطان ان کی تحقیق کا خاص موضوع ہے۔ وہ کینسر کی سماجی اور خاندانی وجوہات پر تحقیق کر رہے ہیں بلکہ کر کیا رہے ہیں لمبی چوڑی ریسرچ کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کی تحقیقات کے مطابق وہ خواتین سرطان کا زیادہ نشانہ بنتی ہیں جو حلیم الطبع، نیک سیرت، سگھڑ، کم گو اور دل ہی دل میں کڑھنے والی ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں منہ پھٹ، بڑبولی، لڑاکا، جھگڑالو، غصہ ور اور بات بات پر دل کی بھڑاس نکالنے والی خواتین عام طور پر سرطان جیسے جان لیوا مرض سے محفوظ و مامون رہتی ہیں۔ میری تحقیق بتاتی ہے کہ یہ بیماری ان کے پاس پھٹکتی تک نہیں، اگر پھٹک پڑے تو ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر صاحب کی باتوں پر اگر یقین کر لیا جائے تو پھر آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم خواتین کی حد تک دل کی بھڑاس سرطان کا بڑا سبب ہے اگر کسی خاتون کے دل کی بھڑاس دل ہی میں رہ جائے اور احسن طریقے سے اس کی نکاسی نہ ہو سکے تو ایسی خاتون سرطانی شکنجے میں آ سکتی ہے۔یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمارے ذہن میں وہ عجوبہ روزگار سوال آیا جس کا تذکرہ ہم نے کالم کے آغاز میں کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بھڑاس کوئی سانس تو ہوتی نہیں کہ بیچاری کو سیدھے سبھائو ہوا میں نکال دیا جائے۔ بھڑاس کے کچھ اپنے آداب ہیں۔ بھڑاس نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ سامنے کوئی فریق ثانی بھی موجود ہو جس پر دل کی بھڑاس نکالی جائے۔ جس طرح دل کی بھڑاس دل ہی میں رہ جانے سے خود اہلِ دل کو کینسر ہو سکتا ہے اسی طرح دوسروں کی دل کی بھڑاس لگنے سے بھی ایسا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جس طرح گرمیوں کے موسم میں لو لگنے سے ہیٹ سٹروک ہو سکتا ہے اسی طرح دل کی بھڑاس لگنے سے فریقِ مخالف بھی سرطان میں مبتلا ہو سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ منہ پھٹ خواتین کی زد میں کون کون آ سکتا ہے اور یہ بھڑاس کتنی دور تک مار کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ منہ پھٹ عورتوں کا سب سے آسان شکار ان کے خاوند ہوتے ہیں۔ اس کے بعد خاوند کی والدہ، والد، بھائی بہنوں کا نمبر آتا ہے اگر کچھ بھڑاس پھر بھی بچ جائے تو وہ ہمسایوں پر نکال دی جاتی ہے۔ کبھی کبھی بطور بونس یہ بھڑاس بچوں پر بھی نکالی جاتی ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ نسوانہ بھڑاس کتنی دور تک مار کر سکتی ہے تو ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر یہ بھڑاس میڈیم ویو پر نکالی جائے تو اس کے اثرات لوکل یا مقامی قسم کے ہوں گے یعنی صرف اہلِ خاندان ایسی بھڑاس سے متاثر ہو سکیں گے لیکن اگر کوئی خاتون شارٹ ویو پر بھی دل کی بھڑاس نکالنے کا تجربہ رکھتی ہو تو ایسی بھڑاس ٹرانسمٹ ہونے کے بعد دور دور تک سرطان پھیلا سکتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کا اخلاقی فرض ہے کہ ہمارے اٹھائے ہوئے سوالات کی روشنی میں تحقیقات کو آگے بڑھائیں۔ انگریزی زبان میں لیڈیز فرسٹ ہر کام کے آداب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے پہلے خواتین میں کینسر کی وجوہات پر تحقیق کی ہے لیکن خود مرد ہونے کے ناطے اور شوہر ہونے کی حیثیت سے اب ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان شوہروں پر بھی تحقیق کریں جو بیویوں کے دلوں سے نکلنے والی بھڑاس کا سعادت مندی سے نشانہ بنتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ ایسے شوہروں کو بیگماتی بھڑاس کے سرطانی اثرات سے محفوظ کرنے کے طریقوں سے آگاہ کریں۔ خدشہ ہے کہ ان کی تحقیقات کے منظر عام پر آنے کے بعد سرطان کے ہلاکت خیز مرض سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے تمام حلیم الطبع شریف خاموشی پسند اور دل ہی دل میں کڑھنے والی خواتین فوری طور پر اپنی عادات تبدیل کر لیں گی اور شوہرانِ باصفا پر دھڑا دھڑ دل کی بھڑاس نکالنے لگیں گی۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہئے کہ وہ کوئی ایسا ماسک یا نقاب ایجاد کرنے کی کوشش کریں جو بھڑاس نکالنے والی خواتین کے منہ پر چڑھا دیا جائے تاکہ بھڑاس اس میں سے فلٹر ہو کر نکلے اور جب شوہر کو لگے تو اسے سرطان میں مبتلا نہ کر سکے۔ بہرحال جب تک ایسا ماسک ایجاد نہیں ہوتا ہم صرف یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ مظلوم شوہر دل کی بھڑاس نکالنے والی بیگمات سے ہوشیار رہیں۔ کم گو خواتین کے لئے ہماری نصیحت یہ ہے کہ وہ مزید تاخیر کے بغیر زیادہ سے زیادہ بھڑاس باہر نکالیں اور اگر ممکن ہو تو اوور ٹائم لگا کر اپنی گزشتہ تاخیر نکالنے کی کوشش کریں۔ سرطان سے بچنے کے لئے جدوجہد کرنا ہر شخص کا قانونی اور ہر عورت کا پیدائشی حق ہے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top