Monday 17 October 2016

Kashmiryon ki nasal kashi awr written by Asghar Ali Shad






کشمیر یوں کی نسل کشی اور۔۔۔۔۔



دنیا بھر کے ذی شعور حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری نسل کشی کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے اور اس ضمن میں عالمی برادری اپنی اجتماعی انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ہندوستان کے سفاک حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے ۔دوسری جانب بھارتی وزراتِ داخلہ نے یہ اعتراف کیا کہ 2016ءکے پہلے پانچ ماہ میں پچھلے برس کی اسی مدت کے دوران ہوئے مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات میں 26.4 فیصد اضافہ
ہوا ہے۔ 2015ءکے ابتدائی پانچ مہینوں میں 287 فسادات اور 43 لوگ مرے جبکہ موجودہ برس 310 فسادات اور 56 لوگ مرے۔ (یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ سو دنوں کے دوران شہادتوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے) ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ گذشتہ ڈھائی برسوں میں بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چند ماہ پہلے یکم مئی کو یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجئس فریڈم (USCIRF) نے بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ مودی سرکار کے آنے کے بعد ہندو انتہا پسندی کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ کسی بھی واقعے یا عمل کو بالکل الگ کر کے یعنی Isolation میں نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ ہر چھوٹا بڑا معاملہ کسی نہ کسی طور اور کہیں نہ کہیں آپس میں جُڑا ہوتا ہے بی جے پی کے چوتھی بار ووٹ کے ذریعے حکومت بنانا اپنے آپ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت چاہے سیکولر ازم کے کتنے ہی دعوے کرے، زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں ہندو انتہا پسندی کے نظریات ہر آنے والے دن کے ساتھ مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں تبھی تو 1984ءکے لوک سبھا چناﺅ میں بی جے پی کو محض دو سیٹیں ملیں مگر اگلے چناﺅ یعنی 1989ءمیں ان سیٹوں کی تعداد 120 ہو گئی اور 1996ءمیں بی جے پی کی لوک سبھا سیٹیں 161 ہو گئیں اور سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر اس نے پہلی بار حکومت بنائی۔ 1998ءکے چناﺅ میں یہ سیٹیں بڑھ کر 178 ہوئیں اور باجپائی سرکار تیرہ ماہ چلی۔ پھر 1999ءکے مڈ ٹرم عام الیکشن میں 183 سیٹوں کے ساتھ یہ تیسری بار برسرِ اقتدار آئی اور پورے ساڑھے چار سال تک حکومت کی۔ 2004ءمیں اس کی سیٹوں کی تعداد 186 البتہ 2009ءمیں قدرے گھٹ کر 116 ہو گئی اور پھر مئی 2014ءمیں 282 سیٹیں حاصل کر کے بی جے پی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور ان 282 سیٹوں میں سے ایک بھی مسلمان نام شامل نہیں۔
بہرکیف بھارت میں انتہا پسندی کی موجودہ صورتحال کو تب تک سمجھنا خاصا مشکل ہے جب تک اس کے اصل منبع RSS کا جائزہ نہ لیا جائے۔ RSS نے دہلی میں وویکا نند انٹرنیشنل فاﺅنڈیشن (VIF) کے نام سے ایک بڑا تھنک ٹینک قائم کر رکھا ہے جس کے تحت آٹھ دیگر ریسرچ سنٹر ہیں جو 2009ءمیں قائم ہوا اور اس کا بانی سربراہ ”اجیت ڈووال“ تھا۔ مودی سرکار بننے کے بعد اسی ادارے کے سربراہ اجیت ڈووال نہ صرف نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنائے گئے بلکہ VIF کے ہی”پُشپندر کمار مشرا“ کو مودی کا پرنسپل سیکرٹری اور ”پی سی مشرا“ کو ڈپٹی پرنسپل سیکرٹری بنایا گیا۔ یوں درحقیقت بھارتی وزیراعظم مودی کا پی ایم سیکرٹریٹ پوری طرح سے RSS اور اس کے ذیلی ادارے VIF کے کنٹرول میں ہے۔ یوں بابری مسجد کی شہادت کے عمل سے لے کر دادری کے سانحے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
اسی پس منظر میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس نے انصاف پر یقین رکھنے والے بھارتی شہریوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تبھی تو گذشتہ برس چھ اکتوبر کو بھارت کی مشہور مصنفہ ”نین تارا سہگل“ نے خود کو ملا ساھتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس لوٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ نین تارا بھارت کے پہلے پردھان منتری جواہر لعل نہرو کی بھانجی ہیں، وہ نہرو کی بہن ” وجے لکشمی پنڈت“ کی بیٹی ہیں۔ انانوے سالہ نین تارا نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ مودی سرکار بھارت کی سماجی وحدت کی حفاظت کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے، اس وجہ سے میں نے یہ میڈل لوٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نین تارا کو یہ ایوارڈ 1986ءمیں بھارت سرکار کی طرف سے ملا تھا ۔ یاد رہے کہ انہوں نے بیس سے زائد ناول اور دیگر افسانے لکھے ہیں اور وہ انگریزی زبان میں لکھنے والے بھارت کے چند مشہور ناول نگاروں میں شمار ہوتی ہیں ۔ان کے انگریزی ناول ”Rich As Us “ پر انہیں یہ ایوارڈ ملا تھا۔
دوسری جانب بھارت کی مشہور صحافی ”تلوین سنگھ “ نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس اور ہندی اخبار ”جن ستا“ میں مودی سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں رہنے والی اقلیتوں پر جس حساب سے شدید ظلم ہو رہا ہے، اس نے ساری دنیا میں بھارت کے منہ پر کالک مل دی ہے۔“ اس کے علاوہ امریکہ کے مشہور اخباروں ”نیو یارک ٹائمز“ اور ”واشنگٹن پوسٹ“ نے بھی بھارتی پالیسیوں اور بڑھ رہی ہندو انتہا پسندی کی مخالفت کی تھی۔ بھارت کے نائب صدر حامد انصاری نے دہلی سرکار کو صلاح دی ہے کہ وہ سبھی شہریوں کے ساتھ ایک جیسا برتاﺅ کرے کیونکہ گیارہ جون 2014ءکو بھارتی پارلیمنٹ سے اپنا پہلا خطاب کرتے ہوئے مودی نے سبھی کو یقین دلایا تھا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی اور اس بارے میں انھوں نے ایک سلوگن ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ بھی دیا تھا لیکن پچھلے ڈھائی برسوں سے اس پر عمل نہیں ہوا۔اس سارے معاملے میں بھارتی وزیراعظم مودی نے پوری طرح چپ سادھ رکھی ہے اسی لئے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے کہ ”مودی سرکار کے پاس نہ تو نیتی (پالیسی) ہے، نہ نیت ہے اور نہ نیتا (رہنما) ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں بھارت کو بُرے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top