Monday 17 October 2016

Pakistan Muslim league (N) ki intikhabat written by Nawaz Raza





پاکستان مسلم لیگ ن کی انتخابات

بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ’’دبائو‘‘ اور پارٹی ٹکٹ جاری نہ کرنے کی ’’دھمکی‘‘ نے کام کر دکھایا 5 سال بعد منگل کو مسلم لیگ (ن) کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں مسلم لیگی حلقوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ پارٹی کو بھی ان کی یاد آ گئی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) جس کی وفاق اور دو صوبوں میں حکومت ہے کی اعلیٰ قیادت نے پچھلے چار پانچ سال سے پارٹی کو دفاتر میں ’’قید‘‘ کر رکھا ہے ایسے حالات میں جبکہ مسلم لیگی حکومت کو سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اچانک انتخابات کا اعلان حیران کن تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک سے قائم ہونے والی حکومت کے دور میں پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کا کوئی اجلاس ہوا اور نہ ہی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلانے کی
زحمت گوارہ کی گئی، پارلیمانی پارٹی کے ایک دو اجلاس ہی منعقد ہوئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے الیکشن کمشن آف پاکستان کی بار بار کی ’’وارننگ‘‘ کے بعد پارٹی کے انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی ہے۔ مسلم لیگ کی جانب سے 17 اکتوبر 2016ء کو پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس بلانے کا ’’سندیسہ‘‘ دیا لیکن اگلے روز ہی مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو غلطی کا احساس ہو گیا کہ 17 اکتوبر 2016ء کو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں خصوصی نشستوں کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی وجہ سے مسلم لیگی رہنمائوں کی اکثریت میں مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت نہیںہو سکے گی جس کے باعث مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس ایک روز کے لئے مؤخر کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عامہ کے اجلاس میں پارٹی کے انتخابات کرانے کے لئے ممتاز مسلم لیگی رہنما چوہدری جعفر اقبال کی سربراہی میں 5 رکنی الیکشن کمشن قائم کر دیا گیا۔ پارٹی کے انتخابات کا انعقاد ایک آئینی تقاضا بھی ہے اور پی پی او کے تحت بھی سیاسی جماعتوں کو بھی انتخابات کرانے کا پابند بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات کرانے سے گریز کرتی ہیں۔ اسی طرح اثاثوں کے گوشوارے جمع نہ کرانے پر سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کی جا چکی ہے۔ عمران خان نے دو بار تحریک انصاف کی تنظیم نو کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ انہوں نے شفاف انتخابات کرانے کے’’جرم‘‘ میں دو چیف الیکشن کمشنروں کو چلتا کیا بالٓاخر انہوں نے نامزدگیوں سے پارٹی کا عبوری ڈھانچہ قائم کر دیا۔ جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کسی اور جماعت میں خفیہ پولنگ ہوتی ہو۔ جب جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہو جائے تو اسے بے پناہ اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بیشتر جماعتوں کی قیادت خاندانوں کے پاس ہوتی ہے لہٰذا پارٹیوں میں ان کی اولاد ہی جانشین ہوتی ہے۔ پاکستان میں بیشتر جماعتوں کے پاس اپنے ارکان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا بیشتر پارٹیوں میں اخراجات برداشت کرنے والوں کی مرضی چلتی ہے قربانیاں دینے والوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف نے’’بھوربن کنونشن‘‘ میں پارٹی تحلیل کر دی تھی پھر انتخابات کرانے میں کافی عرصہ لگ گیا اسے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی کمزوری کہئے یا کچھ اور 26 جولائی2011ء کو ’’ اسلام آباد کنونشن میں صدر سمیت چند عہدیداروں کا ہی انتخاب عمل میں لایا گیا دیگر عہدیداروں کی نامزدگی کے لئے صدر کو اختیارات دے دئیے گئے، سرتاج عزیز نے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری ادا کرنے سے معذرت کر لی تو پھر یہ ذمہ داری اقبال ظفر جھگڑا کو دے دی گئی لیکن ان کی بھی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پارٹی صدر سے 8 منٹ کی ایک ہی ملاقات ہو سکی۔ جب انہیں گورنر خیبر پی کے بنا دیا گیا تو اس عہدہ پر نئی نامزدگی عمل میں نہیں لائی گئی تب سے سیکرٹری جنرل کا عہدہ خالی ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال جو ایک متحرک اور قابل سیاستدان ہیں نے سیکرٹری جنرل کے استعفے کے بعد اییک روز بھی قائم مقام سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام نہیں دئیے۔ جب مسلم لیگ (ق) نے مسلم لیگ (ن) کے سنٹرل سیکرٹریٹ پر قبضہ کر لیا تو ایف 3-8 میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اپنی کوٹھی پارٹی کے سنٹرل سیکرٹریٹ کے لئے دے دی جہاں اس وقت تک پارٹی کا سنٹرل سیکرٹریٹ قائم رہا جب تک سپریم کورٹ کے حکم پر رہائشی علاقوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کے دفاتر کی طرح سیل نہ کر دیا گیا۔ حیران کن بات ہے اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا اسلام آباد میں کوئی دفتر نہیں، سنٹرل سیکرٹریٹ کے ملازمین در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیںکروڑوں روپے کی لاگت سے لاہور میں تعمیر کیا جانے والا دفتر عام انتخابات کے بعد سے’’مقفل‘‘ ہے پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس ان حالات میں اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے جب عمران خان نے اسلام آباد کو ’’بند‘‘ کرنے کی کال دے رکھی ہے۔ پچھلے دنوں میری وزیراعظم نواز شریف کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز سے پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کی موجودگی میں سوال کیا کہ’’ نواز شریف حکومت کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے‘‘ تو میں نے برجستہ جواب دیا ’’جس جماعت نے میاں نواز شریف کو تیسری بار وزارت عظمیٰ دلائی اسے ہی بھلا دیا گیا ہے پوری حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی کوئی ’’ان پٹ‘‘ نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم ملک میں معاشی انقلاب برپا کرنے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں، توانائی کے منصوبوں کی بر وقت تکمیل کے لئے ’’وقت ‘‘ سے جنگ شروع کر رکھی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ مریم نواز نے میرے خیالات سے وزیراعظم کو آگاہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ چوہدری جعفر اقبال کا شمار ان مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے کچھ عرصہ سے نظر انداز کئے جا رہے تھے لیکن پارٹی کے صدر میاں نواز شریف کو یاد آگئے اور ان کو پارٹی کے انتخابات کرانے کی اہم ذمہ داری سونپ دی یہ چوہدری جعفر اقبال کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری دراصل ان پر پارٹی قیادت کی طرف سے اعتماد کا اظہار ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نواز شریف ہی مسلم لیگ (ن) ہیں اور مسلم لیگ (ن) ہی نواز شریف ہے اس لئے ایک بار پھر میاں نواز شریف کو پارٹی کا صدر منتخب کر لیا جائے گا جب کہ میاں نواز شریف کے ایام جلاوطنی میں جس شخصیت نے پارٹی کو قائم رکھااور جنرل پرویز مشرف کے ’’دام ‘‘ میں نہیں پھنسے اسے بھی بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کیا جائے گا وہ شخصیت راجہ محمد ظفرالحق کی ہے جو ہمیشہ پارٹی کے لئے قوت کا باعث رہی ہے پارٹی کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ اس حد تک پُرکشش ہو گیا ہے۔ اس کے حصول کے لئے کئی امیدوار میدان میں اتر آئے ہیں وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور سیدال خان نے پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ کے حصول کے لئے بلوچستان ہائوس میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ان کا مؤقف ہے پارٹی میں بلوچستان کو شروع دن سے نظر انداز کیا گیا ہے سیدال خان کا شمار پارٹی کے دیرینہ مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے لیکن انہوں نے پارٹی کے جس عہدے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس کے لئے متعدد امیدوار قطار میں کھڑے ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف سردار مہتاب احمد خان کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنانا چاہتے ہیں شنید ہے انہوں نے پارٹی کا کوئی عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے لئے مشاہد اللہ خان ، امیر مقام اور پیر صابر شاہ کا نام بھی لیا جا رہا ہے لیکن اس بارے میں کوئی حتمی بات بھی نہیں کہی جا سکتی کوئی ’’ڈارک ہارس ‘‘ بھی پارٹی کا سیکریٹری جنرل بن سکتا ہے اس بات کا قوی امکان ہے پارٹی صدر ،میاں نواز شریف مرکزی جنرل کونسل سے سیکریٹری جنرل کی نامزدگی کا اختیا ر لے لیں اور مناسب وقت پر’’ مناسب ‘‘شخصیت کی نامزدگی کر دیں مجھے یاد ہے 90ء کے عشرے میں سرتاج عزیز نے مسلم لیگ (ن) کونچلی سطح تک منظم کر کے پارٹی بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) 1997ء کے انتخابات میں سویپ کر گئی تھی۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top