Monday 17 October 2016

Tazadat awr mafadat written by Naeem Masood




تضادات اور مفادات


مفادات کی خاطر تضادات کے ابواب کسی معاشرے میں کھلے ہوں یا ریاست میں یا کسی بین الاقوامی برادری میں‘ ہر صورت میں ایکو سسٹم خراب ہوتا ہے اور آخرکار کسی نہ کسی طبقے کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طبقہ کیا‘ اصل سامنا تو انسانی حقوق کو کرنا پڑتا ہے۔ انسان تو انسان ہے‘ وہ مغرب میں پروان چڑھ رہا ہو یا مشرق میں پل رہا ہو‘ وہ شمال کا باسی ہو یا جنوب میں رہائش پذیر ہو۔ کیا ہی خوبصورت افسانہ‘ ڈرامہ یا قصہ ہے کہ گا¶ں کے چودھری سے لے کر امریکہ و روس و برطانیہ کے حکمران تک انسانی حقوق کے اصول کا پرچار کر کے اپنا سماجی‘ قومی اور بین الاقوامی قد کاٹھ بڑھاتے ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر پلک جھپکنے میں انسانی سروں کی فصل کاٹنے کے لئے تیار
ہو جاتے ہیں۔
ترے وعدے پر جئے ہم‘ تو یہ جان‘ جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے‘ اگر اعتبار ہوتا
ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ امریکی محکمہ کے ترجمان نے فرمان جاری کیا ہے کہ ممبئی حملوں سے متعلق پاکستان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں ملے۔ نہیں ملے کا مطلب یہی ہے کہ‘ نہیں ملے! باوجود اس کے امریکہ نے پاکستان سے ڈو مور“ کا مطالبہ جاری رکھا ہے۔ اس ڈو مور میں موریلٹی کہاں ہے؟ جانے کتنے لوگوں‘ کتنی میڈیا کمپنیوں یا تجزیہ کاروں کو اجمل قصاب یاد ہے۔ اس کا گا¶ں‘ اس کا کردار اور اس کے ”کمالات“ کے چرچے ان دنوں کئی میڈیا کمپنیوں اور زبان زد خواص و عوام کے لئے باعث کشش رہے جب آصف علی زرداری کی حکومت کا آغاز تھا۔ آصف علی زرداری کی حکومت کے ساتھ ساتھ یہ داستان بھی شروع ہو گئی تھی اور امتحان بھی۔ آصف علی زرداری تو جب ”ذہنی مریض“ ثابت کرنے کا چکر چل رہا تھا اس وقت ممبئی حملوں کی ”فلم“ بھی سرکٹ میں کھڑکی توڑ رش کی طرح چل رہی تھی۔ اس وقت ان کے مخالفین اور حب الوطنی کے ”ماہرین“ نے تضادات کی شاہراہ کو مفادات کی منزل پر پہننے کے لئے پسند کیا ہے۔ نہ جانے سیاست اور محبت میں سب جائز کیوں اور کیسے ہے؟ حالانکہ ہم نے تو محبت اور جنگ میں سب جائز کا سن رکھا تھا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے‘ شب غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا‘ اگر ایک بار ہوتا
مفادات کے پروانوں اور تضادات کے بین الاقوامی دیوانوں کو جانے کشمیر کی 70 سالہ جدوجہد کیوں بھول جاتی ہے۔ وہی مہرے اور وہی چہرے مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے علیحدگی اور جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کے موقع پر خوردبین اور دوربین تھامے ننھی منی تحریکوں کو تو تسلسل سے دیکھتے رہے کیونکہ علیحدگی مسلمانوں سے درکار تھی اور غیر مسلموں کو مطلوب تھی؟ لیکن چشم فلک کے آنسو اور گواہی اقوام متحدہ سے امریکہ و برطانیہ اور بین الاقوامی برادری کو کبھی نظر نہیں آئے اور نہ وہ قراردادیں جو اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں پڑی انسانی حقوق علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ یہ تضادات والے ”مفادیت“ کو تو جنم دے سکتے ہیں مگر انسانیت کو نہیں۔
کیا م¶رخ ظلم و ستم کی اس بین الاقوامیت کو بھی بھول جائے گا‘ یہ ماضی میں جو روس کی نظر میں تخریب کار تھا وہ امریکہ کی نظر میں وہی مجاہد تھا اور یہ لیبارٹری اور یہ ٹیسٹ سرزمین پاکستان پر ہوتے تھے؟ کل جو مجاہد تھا لگ بھگ وہی آج امریکہ کے لئے دہشت گرد ہے۔ کل بھی امریکی تقاضا ایک ڈو مور تھا اور آج بھی امریکی تقاضا ایک اور ڈو مور ہے‘ اور ہم ہمیشہ ”ڈوئنگ مور“ والے۔ اگر کوئی روس شو میں اپنے پرانے تخریب کار کا نام آج مجاہد رکھ دے‘ تو ہم کیا کریں گے؟ اس کے لئے کیا تیاری ہے؟
خیر اب ہم‘ ایٹمی طاقت ہیں اور جمہوری کلچر بھی‘ پس ہماری قومی سلامتی قوی ہو چکی ہے۔ روز اٹھنا اور پل پل یہ کہہ دینا کہ قومی سالمیت کو خطرہ ہے۔ اب ہمیں یہ زیب نہیں دیتا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جوہری توانائی اور جمہوری کلچر کے بعد اعتماد کو بھی حاصل کر لیں۔ کسی صحافی کی بریکنگ نیوز یا کسی دشمن کی گندی نظر ہماری پاکدامنی اور قوت ارادہ کے لئے فٹافٹ خطرہ نہیں بن جانا چاہئے۔ طریقہ کار کا اختلاف ہو یا اصولی اور جمہوری اختلاف گویا ہماری سیاسی و عسکری طبقوں میں اختلاف رائے ہو بھی مگر جب ہو ہی اپنی اپنی جگہ ملکی سالمیت اور حب الوطنی کے لئے تو پھر کچھ بیانوں‘ باتوں اور دشمن کی غلط فہمی کے سامنے ہم ایک صفحہ پر آ کر اور کندھے اُچکا کر ناز و ادا سے یہ کہہ دیں گے کہ ہم ایک ہیں (جبکہ ہم ایک ہی ہیں) تو ببانگ دہل یہ سب کچھ ٹھکا ٹھک اور بکا بک کہہ دینے میں حرج کیا ہے؟ اختلاف رائے ہونے سے خوف کے بادل ہوں کہ سائے منڈلانے کا کسی کا خوف ہمارے نزدیک کوئی معنی نہ رکھے تو بہتر ہے۔
تحریک پاکستان نے قیام پاکستان کو جنم دیا۔ تحریک استحکام پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو اور بعدازاں سبھی حکمرانوں کی کاوش کی بدولت قوم کو ناقابل تسخیر دہلیز پر لا کھڑا کیا اور جوہری پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔ ارادہ پختہ تھا تو زنجیری عمل‘ ہاں‘ ہاں! سیاستدانوں کے زنجیری عمل نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا کر دم لیا۔ انہی حوصلوں اور ولولوں کی ہر دم ضرورت ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی تضادات کو ریسرچر کی آنکھ سے دیکھا جائے اور اپنے خارجی و داخلی معاملات کو تضادات کی ذاتی بھٹی میں جھلسنے سے بچایا جائے۔ اپنے مفادات کو قومی مفادات پر قربان کریں تاکہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ یہ کہنے پر مجبور نہ ہو کہ: ”عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہو رہا ہے۔ ملک میں جمہوریت نہیں بادشاہت قائم ہے“ ہیوی مینڈیٹ والے بھلے ہی سیخ پا ہوں لیکن اپنے بیان بازوں کو یہ بھی کہیں کہ تدبر کا دامن ہی پاک دامن ہوا کرتا ہے۔ پھر وہ جگ ہنسائی اور کلاکاری بھی تو قابل غور ہے کہ کسی صحافتی ایجنسی کے جنوبی ایشیا کے بہترین وزیر خزانہ کہنے کو ورلڈ بنک یا ”معاشی ورلڈ“ سے منسوب کر دینا: ”یہ کہاں کی دوستی ہے کہ‘ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا“
یہ مسائل تصوف‘ یہ ترا بیان‘ غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے‘ جو نہ بادہ خوار ہوتا
ہماری داخلی تضادات و مفادات کا رونا یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہردلعزیز لیڈر عمران خان نوجوان‘ نوجوان کی رٹ لگاتے ہیں‘ نوجوانوں پر انحصار کی باتیں کرتے ہیں‘ نوجوان قیادت اور ووٹرز کا راگ الاپتے ہیں اور دوسری جانب بلاول بھٹو کی جوانی اور نوجوانی پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے اپنے تضادات کی تلوار کو بے نیام کرتے ہیں۔ دوسری طرف جناب زرداری پاکستانی سیاست میں رونق افروز ہونے کے بجائے دبئی جلوہ افروزی کے تضادات و مفادات کے گرداب میں ہیں۔ پھر میاں صاحب محترم سلیقے اور طریقے سے پانامہ تضادات و مفادات کے بھنور سے نکلنے کے بجائے اپنے خول کی Cyst کو موٹاپا دیئے جا رہے ہیں۔ غم اگرچہ جاں گُسل ہے‘ پہ کہاں بچیں کہ دل ہے؟
بڑی عاجزی و انکساری سے بڑے سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ خود بھی اپنے پا¶ں پر کھڑے ہوں اور پاکستان کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ حسنین حقانی و مشاہد حسین کبھی ادھر کبھی ادھر۔ طلال و دانیال و قریشی و ترین کبھی ادھر کبھی ادھر۔ وہی حقانی نما کبھی پی پی پی مخالف ہو کر ن لیگیوں کو ”بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک“ کے لفظ دیتے ہیں اور کبھی پی پی پی لورز ہو کر میمو گیٹ بنوا دیتے ہیں۔ تضادات سے آلودہ لوگ اقوام میں ہوں یا بین الاقوامیت میں یہ انسانی حقوق کے لئے مفادات نہیں تراش سکتے۔






No comments:

Post a Comment

Back to Top