Monday 17 October 2016

Yume ghashora mili Yakjehti written by israr buhari





یوم عاشو رہ ملی یکجھتی کا لائق تحسین مظاہرہ




بھارت کے جنگی جنون اور پاکستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مذموم سرگرمیوں کے باعث محرم الحرام میں بالخصوص یوم عاشور کو دہشت گردی کی وارداتوں کے خدشات اگر ذہنوں میں کلبلا رہے تھے تو یہ فطری امر تھا جبکہ چند روز قبل کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی خواتین کو بس میں نشانہ بنایا جا چکا تھا مقصد جس کا محرم الحرام سے قبل فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہوا دے کر ملک بھر میں تصادم کی راہ ہموار کرنا تھا
مگر اس مرتبہ ملی یکجہتی کا جو مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور حکومتی سطح پر جو بہتر حفاظتی انتظامات کئے گئے اس کی بدولت یوم عاشور امن و امان سے گزر گیا۔ لاہور میں مرکزی ماتمی جلوس کے منتظمین نے سول انتظامیہ سے بھرپور تعاون کیا۔ غیرضروری تاخیر سے گریز کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جلوس شام سات بجے کربلا گامے شاہ پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا۔ 70ءکی دہائی سے قبل ایسے مواقع پر باہمی تعاون کے ایسے ہی مظاہرے دیکھنے میں آتے تھے۔ ماتمی جلوس سنیوں کی مساجد کے قریب سے گزرتا تو منتظمین مسجد کے دروازے پر یا دیواروں کے ساتھ کھڑے ہو کر یاحسینؓ، یاحسینؓ کا ورد کرتے ہوئے ہاتھ سے اشارے سے جلوس کو قدرے تیزی سے گزار دیتے اور اگر نماز ہو رہی ہوتی تو شرکاءجلوس خاموشی اختیار کر لیتے۔ شیعہ خواتین جلوس کے راستے میں آنے والے سنیوں کے گھروں کی چھتوں سے جلوس کا نظارہ کرتیں۔ 70ءکی دہائی کے بعد شدت پسندی نے جڑ پکڑ لی اس کے نتیجے میں جو ہوا وہ موجودہ تاریخ کا ناخوشگوار باب ہے۔ رفع شر کی خاطر اس بحث سے اجتناب ضروری ہے کہ پہل کا ذمہ دار کون ہے بہرحال لمحہ موجود کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ امسال اس موقع پر ناخوشگوار صورتحال نے جنم نہیں لیا جو فرقہ ورانہ کشیدگی اور نتیجتاً تصادم کی بنیاد بنتی۔ پنجاب حکومت نے جسے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا ویژن قرار دیا گیا ہے پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے جدید ترین اینٹی گرینڈ کمانڈر اینڈ کنٹرول اینڈ کمیونیکیشن سنٹر کے ذریعہ شہر میں نکلنے والے نویں اور دسویں کے جلوسوں کی مکمل مانیٹرنگ کی جاتی رہی۔ منگل کے روز وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس سنٹر کا قربان لائن میں افتتاح کیا۔ اس روز اندرون شہر نویں کے ماتمی جلوس نکل رہے تھے۔ سنٹر میں آویزاں بہت بڑی سکرین جسے جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی سکرین کہا گیا ہے وزیراعلیٰ، صوبائی وزرائ، ارکان اسمبلی، متعلقہ حکام اور میڈیا پرسنز کیلئے یہ سکرین بڑی دلچسپی کا باعث تھی کہ شہر کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ کچھ علاقوں میں ماتمی جلوس اور عزاداروں کی آمدورفت پولیس آفیسرز اور اہلکار بڑی مستعدی سے ان کی مکمل فزیکل چیکنگ کر رہے تھے۔
سنٹر میں ایک بہت بڑی سکرین میڈیا کے وابستگان اور دیگر افراد کے لئے بہت دلچسپی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں چلتی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور پیدل افراد نظر آرہے تھے۔ کلوزاپ میں جن کے چہروں کو باآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے۔ چوری شدہ گاڑی یا کسی جرم کی واردات میں ملوث گاڑی یا فرد کا سرخ رنگ کی لیزر لکیر سے تعاقب کر کے اسے قابو کیا جا سکے گا اور ساتھ ہی گاڑی کا نمبر بھی سکرین پر واضح ہو جائے گا۔ یہ سب مناظر سنٹر کی سکرین کے سامنے موجود وزیراعلیٰ، صوبائی وزرائ، ارکان اسمبلی، متعلقہ حکام، سول و پولیس حکام اور میڈیا پرسنز اپنی نشستوں پر بیٹھے دیکھ رہے تھے۔
کامیابی کے فخر سے زیادہ ناکامی کا اعتراف زیادہ قدروقیمت رکھتا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا بڑے حوصلے سے یہ اعتراف کر رہے تھے ہم عوام کی ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکے جو ہم سے بجاطور پر وابستہ کی گئی تھیں۔ ہماری مجموعی کارکردگی وہ نہیں رہی جس کا تقاضا کیا گیا تھا۔ اس اعتراف کے ساتھ بہت مضبوط لب و لہجے کے ساتھ وہ اس عزم کا اظہار بھی کر رہے تھے وزیراعلیٰ شہباز شریف جو سہولتیں مہیا کر رہے ہیں پنجاب پولیس عوامی توقعات پر پورا اترنے کی منزل حاصل کر لے گی۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ سکیورٹی انداز بھی بدل گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف پنجاب پولیس کو جو سہولتیں فراہم کر رہے ہیں کہ پنجاب کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ پنجاب پولیس کے لئے چیلنج ہے اور آنے والا وقت یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ اس چیلنج سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔
پولیس کی کارکردگی کی بات چلی تو حال ہی میں سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ پوری دنیا ششدر رہ گئی کہ برطانیہ میں جہاں حالت جنگ میں اس وقت کے وزیراعظم چرچل کو اطلاع دی گئی کہ جرمن فوجیں نزدیک آگئی ہیں، جواب میں چرچل نے اطلاع لانے والے سے پوچھا کہ برطانیہ کی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں۔ جواب دیا گیا ہاں، عدالتیں انصاف دے رہی ہیں۔ چرچل نے جواب دیا پھر کوئی فکر نہیں۔ اس کا مطلب ہے جس سرزمین پر انصاف ہو اس سرزمین پر کسی بھی نوع کی آفتیں نازل نہیں ہو سکتیں۔ ایک مدت تک برطانیہ کو انصاف پرور ملک کی شہرت حاصل رہی اور اس دوران اگر اس شہرت کو داغدار کرنے والے کچھ واقعات رونما ہوئے بھی تو وہ ایسے نہیں تھے کہ ان کی شہرت ملکی سرحدیں پار کرتی لیکن اب برطانیہ کا نظام انصاف جس کی بنیاد پراسیکیوشن ہے سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو رہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ لندن کے سربراہ الطاف حسین کے معاملے میں تو اس شہرت کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔
جہاں تک برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کا تعلق ہے تحقیق و تفتیش اور جرائم کا کھوج لگانے کے سلسلے میں پوری دنیا میں یہ تاثر ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے بلکہ یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ اگر سوئی جتنے شواہد مل جائیں تو وہ سمندر کی تہہ سے بھی مجرم کو نکال کر قانون کی عدالت میں پیش کر دیتی مگر سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے اس تاثر اور گمان کو سخت دھچکا لگا جب اس کی پراسیکیوشن نے عدم ثبوت کی بنا پر الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس ختم کرنے کا اعلان کر دیا حالانکہ چھاپہ کے نتیجے میں لندن مین الطاف حسین کی رہائش گاہ سے جو پانچ لاکھ پونڈ کی رقم اور ہتھیاروں کی خریداری کی فہرست برآمد ہوئی تھی آج تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس بنک کے ذریعہ آئی۔ اسی طرح اسلحہ خریداری کی فہرست جو ہاتھ سے تحریر کردہ ہے اور خریدے گئے ہتھیاروں کی قیمت بھارتی روپوں میں درج ہے یہ تحریر ایم کیو ایم لندن کے ایک اہم شخص کی تحریر کردہ ہے اور ہینڈ رائٹنگ سے مل گئی ہے۔ اس کے باوجود منی لانڈرنگ کے کیس میں ان ثبوتوں کو ناکافی قرار دے دیا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top