Monday 17 October 2016

Ab b jawan ho ex cm qaim ali sha written by Sare rahe





سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے ان توانا جذبوں کی پیپلز پارٹی والوں کو قدر کرنی چاہئے جو انہیں استعمال کرنے کے بعد بھول سے گئے ہیں حالانکہ موصوف ابھی تک … ع
’’خزاں نہیں بہار ہوں ابھی تو میں جوان ہوں‘‘
کی لے پر تھرک رہے ہیں، جب وہ جوان تھے تو اس دور میں بھی وزیر ہونے کے باوجود ان سے کوئی کام نہ ہو سکا، پکی عمر کے دور میں انہیں وزارت اعلیٰ کا تاج پہنایا گیا، وہاں بھی 8 برسوں میں انکی کارکردگی صرف آصف زرداری صاحب کی جی حضوری اور احکامات کی بجا آوری کے سوا کچھ نہیں رہی تو اب کونسا کام رہ گیا جو انہیں سونپا جائے۔
فی الحال تو آپ اپنے بارے میں، بھٹو اور بے نظیر کے بارے میں کتابیں لکھنے میں مصروف ہیں تو اس
میں مگن رہیں بہتوں کا بھلا ہو گا۔ حکومت سندھ اس وقت جو کام کر رہی ہے اسے کرنے دیں یہی بہتر ہے، کم از کم آٹھ برس بعد کسی وزیر اعلیٰ کو عوام نے سڑکوں پر تو دیکھا ورنہ موصوف قائم علی شاہ کی تو صرف تصویر اخبارات میں یا ٹی وی پر نظر آتی تھی وہ بھی تب جب موصوف استراحت فرما رہے ہوتے تھے یا کسی جلسہ میں بلاول جی کے سامنے جوان بننے کی کوشش کرتے تھے۔
٭…٭…٭…٭
ڈی جی خان میں بورڈ نے طالب علم کو مقررہ سے زیادہ نمبر دے کر ریکارڈ قائم کر دیا!
گیارہویں جماعت میں بیالوجی کے 85 نمبروں میں سے 88 نمبر دینے والے ان پرچہ چیک کرنے والوں کی ذہانت اور دیانت پر کسی کو شک نہیں کرنا چاہئے یہ انکی عطا ہے کہ وہ نمبر دینے پر آ جائیں تو ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ اب اصل مسئلہ تو اس طالب علم کا ہے جو نمبر درست کرانے کے لئے بورڈ آفس کے دھکے کھا رہا ہے، کئی روز ہو گئے اس بیچارے کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں پیپر چیک کرنے کا معیار کیا ہے۔ دوران چیکنگ کسی بھی چیکر نے ٹوٹل نمبر ہی چیک نہیں کئے، اب ضرورت سے زیادہ نمبر لینے والے اس طالب علم پر کیا گزر رہی ہو گی جو دوبارہ چیکنگ میں نجانے اعلیٰ سے گر کر ادنیٰ کے کس مقام پر ٹھہرتا ہے کیونکہ معلوم نہیں جوابی کارروائی کے طور پر بورڈ اس سے کیا سلوک کرے۔
یہ تو نمونہ ہے ہمارے ایک ایجوکیشن بورڈ کی کارکردگی کا ورنہ باقی بورڈز میں بھی کیا کچھ ہوتا ہے اس کا اندازہ لاہور بورڈ کے باہر سینکڑوں طلباء و طالبات کے احتجاج سے لگایا جاسکتا ہے جو گیارہویں کے امتحان میں ناقص چیکنگ اور نمبرنگ کا رونا رو رہے ہیں مگر اس کا نتیجہ بھی پہلے کی طرح وہی ڈھاک کے تین پات والا ہی نکلتا نظر آ رہا ہے کیونکہ بورڈ والوں کے پاس سوائے طفل تسلیاں دینے کے اور ہے ہی کیا۔
٭…٭…٭…٭
سکاٹ لینڈ میں سڑک کراس کرنے پر مُرغی گرفتار!
قانون سب کیلئے یکساں ہوتا ہے اس بات کا اصل نمونہ دیکھنا ہو تو یورپ میں اسکی جھلک نظر آتی ہے۔ سکاٹ لینڈ میں ایک بی مرغی چلی ٹریفک کے اژدھام میں سڑک کراس کرنے کے لئے۔ جونہی سڑک پر خراما ںخراماں چلنے لگی، کسی گاڑی والے نے ٹریفک پولیس کو اطلاع کر دی۔
اب ظاہر ہے اگر یہ ایسا نہ کرتا تو تیز رفتار ٹریفک کے اژدھام میں یہ بی مرغی کچلی جاتی یا اس کو بچانے کی کوشش میں درجنوں گاڑیاں اچانک بریکیں لگانے کی وجہ سے آپس میں ٹکرا جاتیں۔ یوں کافی جانی و مالی نقصان ہوتا۔
اب ٹریفک پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بی مرغی کو گرفتار کر کے حوالات پہنچا دیا، اب اس کے مالک کی تلاش زور و شور سے جاری ہے جس کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ مرغی سڑک پرنکل آئی۔ یہ تو مرغی صاحبہ کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ پولیس نے اسے بچا لیا ورنہ اگر ہمارے ملک میں کوئی مرغا یا مرغی پولیس کے ہتھے چڑھ جائے اسکی برآمدگی کے امکانات سو فی صد ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ پکڑنے کے ساتھ ہی اسکی شکل بدل دی جاتی ہے اور وہ روسٹ کی شکل میں تھانیدار کے سامنے ٹیبل پر پہنچ جاتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
پنجاب ہائی وے پولیس نے نوٹوں سے بھرا بیگ اور آئی فون مالک کے حوالے کر دیا!
پولیس سے شکایت اپنی جگہ اچھے کاموں پر اسکی تعریف و ستائش اپنی جگہ، کہاں وہ نابکار اہلکار جو ریڑھی سے اور کچھ نہ ملے تو ایک سیب یا کیلا اٹھانا بھی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں کہاں وہ اہلکار جو لاکھوں کی رقم واپس کر کے اپنی امانتداری قائم رکھتے ہیں۔ اس وقت جب پیسے کی دوڑ میں سب شامل ہیں۔ اس پولیس والے کو خصوصی انعام ملنا چاہئے جس نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا۔رقم بھی کوئی معمولی رقم نہیں 15 لاکھ سے زیادہ نقد رقم اور 72 ہزار روپے والا قیمتی آئی فون واپس کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے۔ ایسے کام کی ستائش ضروری ہوتی ہے۔
اب چاہے اس کے باقی ساتھی اسکی اس حماقت پر باقاعدہ اجلاس بُلا کر اظہار افسوس کریں یا مذمتی قرارداد منظور کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ کبھی کبھار ہی ملنے والی ایسی خبروں سے اچھے پولیس والوں کا بھی اچھے الفاظ میں ذکر ہوتا ہے۔
ویسے روزِ عاشور میں جس طرح دن بھر ہزاروں پولیس والوں نے ایمانداری سے ڈیوٹیاں سرانجام دیں جس کے باعث عاشورہ بخیر و خوبی گزرگیا وہ بھی لائق تحسین ہیں۔
پولیس والا ٹریفک کا ہو یا دوسرا عام پولیس والا ہمارے سادہ لوح عوام سب کو پولیس والا ہی کہتے ہیں جس کا تصور ہی خواہ تھانے میں ہو یا چالان چھڑانے والے دفتر میں‘ عوام کو تھرتھرانے پر مجبور کر دیتا ہے اگر ہماری پولیس عوام کے ساتھ محبت، نرمی اور اخلاق سے پیش آئے تو یہ تھرتھراہٹ بھی ختم ہو سکتی ہے۔ اعلیٰ پولیس حکام اگر وردی سے خوف کی یہ فضا ختم کرا سکیں تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور عوام بھی اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top