Wednesday, 12 October 2016

IMAM Hussain ki Shadat awr Hum written by Mohammad akram chaudhry


                                                         امام  حسینؓ کی شھادت اور ہم
اللہ کے انعام یافتہ بندے کون ہیں؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہے ’’جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کریگا وہ اللہ کے انعام یافتگان کی معیت پائے گا۔ جو انبیاء صدیقین، شہداء اور اولیاء و صالحین ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ کتنے اچھے رفیق اور کتنے اچھے ساتھی ہیں۔‘‘حضرت امام حسینؓ بھی انہیں شہدا میں سے ایک ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے … دنیا میں آپ ؐسے پہلے اور بعد بے شمار شہادتیں ہوئیں لیکن کسی شہادت کو وہ شہرت اور دوام نہ مل سکا جو شہادتِ امام حسین ؓ کے حصے
میں آئی۔
آج ہمیںیہ علم ہونا چاہیے کہ شہادت امام حسین ؓ اپنی حقیقت کے اعتبار سے دراصل سیرتِ مصطفی ؐ کا ایک باب ہے۔ شہادتِ امام حسینؓ میں کمال نبوتِ مصطفی ؐ کا اظہار اپنی پوری آب و تاب سے ہوتا ہے۔ اس لئے اس شہادت کو امام حسین ؓ کی شخصیت کے تناظر میں نہیں آئینہ کمالاتِ محمدی ؐ میں دیکھا جائے تو پھر اس کی عظمت سمجھ میں آجائیگی۔آپؓ نے خود کو قربان کر دیا لیکن اپنے نظریات سے پیچھے نہ ہٹے اور پھر واقع کربلا نے تاریخ اسلام کو ایسا رنگ دیا جس نے اسلامی تاریخ کو روشنیوں سے بھر دیا اور اسلام کو ایک ایسی شان بخشی کہ اب باطل کبھی بھی حق کے مقابل نہ ٹھہر سکے گا۔ حق وباطل کے درمیان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کے لختِ جگر نے اپنے لہو سے ایسی لکیر کھینچ دی ہے کہ روزِقیامت تک باطل چاہ کر بھی اس کو عبور کر کے حق تک نہ پہنچ سکے گا۔ حق بلندی ہے باطل پستی ہے، اسی طرح حسینیت شفا ہے اور یزیدیت بیماری ہے۔ حسینیت شفا کیوں نہ ہوتی جس کے نانا رحمتہ اللعالمینؐ، باپ شیرِخدا، ماں خاتون جنت اور خود جنت میں نوجوانوں کے سردار۔ جن کے بابا کو تاجدار نبوت وکائناتؐ مولا کا درجہ دیں اس ذات کی بلندی کیا ہوگی۔ حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا میں جس کا مولاہوں علیؓ اس کا مولا ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے مولا کائنات حضرت علی مرتضیٰؓ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا جس کا میں ولی ہوں علیؓ اس کا مولا ہے۔ حضرت علی مرتضیٰؓ کے متعلق ایک اور جگہ آپؐ نے فرمایا علیؓ مجھ سے محبت کرنے والا میرا محب اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے، یہ مولا کائنات کا مقام ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیں ہر نعمت، خوشی، پاکیزگی، صالحیت، صدیقیت، راست بازی، سچائی، پارسائی، دامن مصطفیؐ سے میسر ہوئی تو یہ کیسے ممکن تھا اسے عظیم پیغمبر سردارالانبیاؐ کی اُمت حصول شہادت کے لئے کسی اور درجا کر گڑگڑاتی۔ یہ بات طے تھی کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی شادی ہونا تھی اورحضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔ شہادت کو بھی دامن مصطفیؐ سے نکلنا تھا۔ کربلا کے واقعے کا علم رسولؐ کو پہلے ہی تھا۔ اسکے بارے میں بہت سے شواہد موجود تھے۔ اُم لمومنین حضرت اُم سلمہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسولؐ کی چشمان مقدس سے آنسو رواں دیکھے تو پوچھا: یارسول اللہؐ! آج کیا بات ہے کہ چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا:مجھے ابھی ابھی جبرائیلؑ نے خبر دی ہے کہ آپؐ کی اُمت آپؐ کے بیٹے حسینؓ کو اس سرزمین پر قتل کردے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایاکہ رسولؐ نے فر مایا کہ مجھے جبرائیلؑ نے خبر دی ہے کہ حسینؓ فرات کے کنارے شہید ہوں گے اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ مقام ومرتبے، علم اور کردار میں بلند ترین خاتون سے مروی ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: میرا یہ بیٹا حسینؓ میرے بعد مقام طف میں قتل کردیا جائیگا۔ یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ کربلا اچانک رُونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ اسلام کے پھیلائو اور شان کا تسلسل تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ شہادت بھی دامنِ مصطفیؐ ہی سے چلے۔ اہلِ بیت کی قربانیوں کا تسلسل پورا کرنے کیلئے بھی یہ ضروری تھا۔ سردارالانبیاؐ کے دین کی بقا اور سربلندی کیلئے کربلا کی زمین کو اہلِ بیت کا خون نصیب ہونا تھا۔ اس مٹی نے شہدائے عظیم کے چہرے قریب سے دیکھے تھے۔ اس زمین نے حیدرؓ کے بیٹے کی للکار، تلوارکی کاٹ اور اللہ کے راستے میں اپنی آلؓ لٹانے کا منظر دیکھنا تھا۔
روایتوں میں ہے کہ امام حسینؓ 10محرم کو کربلا میں آئے تھے اور آپؓ کی عمرمبارک 56برس پانچ ماہ اور پانچ دن تھی مگر آپؓ کے سر مبارک کا ایک بھی بال سفید نہ ہوا تھا لیکن جب جوان بیٹے حضرت علی اکبرؓ کا لاشہ اپنے بازوئوں میں لیکر پلٹے تو سرِانور کے سارے بال اور ریش مبارک سفید ہوچکی تھی، ایک ایک کر کے سبھی ہیرے گنوادئیے، چھ ماہ کا پاکیزہ پھول بھی ظلم کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ اب وہ وقت آپہنچا تھا جس کیلئے رسول اکرمؐ نے کہا تھا کہ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، حضرت ابراہیمؑ کی دعاکی تکمیل ہونا تھی اسمٰعیلؑ کی قربانی کو پایۂ تکمیل تک پہنچنا تھا۔ کربلا کی زمین پر جب امام حسینؓ کا خون گرا تو حق وباطل کے درمیان تاقیامت ایک مضبوط لکیر کھینچ گئی۔ ذبح عظیم تکمیل کو پہنچ گیا، اسلام کی تاریخ روشنیوں اور رنگوں سے بھر گئی تھی، دین محمدیؐ کی شان رہ گئی تھی۔ دینِ حق کا پرچم لہرانے لگا تھا، حسینیت کا عَلم بلند ہوگیا تھا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ۔
آپؓ نے اقتدار کو اہمیت نہیں دی اور اپنے نظریات کی خاطر جان قربان کر دی ۔ آج کی قوم کے لیے یہ ایک پیغام ہے کہ ہمیشہ نظریات زندہ رہا کرتے ہیں اور حضرت امام حسین ؓ کو آج تک انکے عظیم نظریات نے زندہ رکھا ہے اور یزید کو اسکے کردار اور اقتدار کی وجہ سے آج تک کوئی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا۔ اور یہی پیغام حکمرانوں و سیاستدانوں کیلئے ہے کہ حکومتیں سدا قائم نہیں رہا کرتی بلکہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا، ان کیلئے قربانیاں دینا، ان کیلئے قربان ہو جانا اور اللہ کی حکمرانی کو یاد رکھنا ہی ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ خاندان نبوتؓ اور صحابہ کرامؓ، اسلام کی دو روشن آنکھیں اور ان سے عقیدت ومحبت عین ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top