Thursday, 13 October 2016

Hilafat e Abubakar awr Karbala written by Taiba zia cheema(newyork)



پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کے اس جہان فانی سے پردہ فرمانے کے بعد مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ یہ اختلاف کا واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر رونما ہوا۔ اس مجلس میں جلدی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مہاجرین و انصار کی فضیلت کو بیان کیا اور آخر میں فرمایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ : (الائم من قریش)) ” خلیفہ قریش سے ہو گا۔ “
(مسند احمد رحمہ اللہ ، تاریخ الخلفاءسیوطی ص : 14 )
چنانچہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت میں کوئی شک نہیں ہے فوراً اختلاف ختم ہو گیا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ لیکن تمام مہاجرین و انصار نے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔ آپ بالاتفاق خلیفہ منتخب ہو گئے۔خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیھم اجمعین سے عام مشورہ لیا کہ میں اپنے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتا ہوں ” افترضون “ کیا تم پسند کرتے ہو؟ ” فقال الناس قد رضینا “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا ہم راضی ہیں۔ خصوصاً جلیل القدر صحابہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا۔ ہر ایک نے پوری آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ببانگ دہل کہا
((لا نرضیٰ الا ان یکون عمر بن الخطاب))
” ہم عمر بن خطاب کی خلافت کے سوا کسی کو پسند نہیں کریں گے۔ “عام و خاص کے مشورہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کر دیا۔خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے نصرانی غلام ابولولو فیروز نامی شخص نے نماز فجر کی حالت میں خنجر مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے خلافت کے لئے چھ آدمیوں کے نام لئے اور فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے راضی گئے ہیں۔1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ2۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ3۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ4۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ5۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ6۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
ان چھ میں سے میرے بعد جس کو چاہو خلیفہ بنا لو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان چھ کا خصوصی اجلاس ہوا۔ چار خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ صرف دو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت کے امیدوار باقی رہے۔ ان دونوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنا جج اور فیصل تسلیم کر لیا۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے مشورہ لے کر کثرت رائے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجمع عام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔ بالاتفاق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ثالث منتخب کر لیا گیا۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :” بیعت کے موقع پر لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اس قدر ہجوم کیا یہاں تک کہ ان کو منبر کے پاس ڈھانپ لیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ میں بلوائیوں و باغیوں کا زیادہ زور تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر زور دیا کہ وہ خلافت کی بیعت لیں لیکن انہوں نے فرمایا کہ جب تک اہل مدینہ بیعت نہ کریں میں بیعت نہیں لوں گا۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی اورآپؓ خلیفہ چہارم منتخب ہو گئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پر عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے کوفہ کی جامع مسجد میں نماز فجر کے وقت حملہ کیا اور تو آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوفیوں نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اپنے حال میں مشغول ہوں تم جس کو پسند کرتے ہو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد کوفیوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر خلافت راشدہ کا تیس(30) سالہ دور ختم ہو جاتا ہے۔مدت خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (دو سال چار ماہ)مدت خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ(دس سال چھ ماہ)
مدت خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ(بارہ سال)
مدت خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ(چار سال نوماہ اور کچھ دن)مدت خلافت حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ
(چھ ماہ اور کچھ دن)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ 40ھ میں کوفیوں سے تنگ آ کر حضرت معاویہ سے صلح کر لیتے ہیں ، جس بناءپر اس سال کو امت مسلمہ کے لئے صلح کا سال قرار دیاجاتا ہے۔اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی پورا ہوتا ہے ” کہ میرا بیٹا (حسن رضی اللہ عنہ ) دو مسلمان جماعتوں میں صلح کرائے گا۔ “ چنانچہ حضرت امیر معاویہ نے صلح کے لئے ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر اور دستخط کر کے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے تمام شرائط کو منظور کر لیا۔ اس کے ساتھ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام ساتھیوں نے حضرت امیر معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ جس سے پورے ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔ حضرت امیر معاویہ نے 40 ھ سے لے کر 60 ھ تک تقریباً بیس سال حکومت کی۔ حضرت امیر معاویہ کا دور خلافت بیس سال ہے اور گورنری کا دور بھی بیس سال ہے۔
حضرت امیر معاویہ نے کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر اپنے بیٹے یزید کو اپنی زندگی میں خلیفہ نامزد کیا اور اس کے لئے بیعت خلافت لی۔ حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد 60 ھ میں یزید کے ہاتھ پر شامیوں نے اہل مدینہ اور دوسرے صوبہ جات نے یزید کی بیعت خلافت کی۔ یزید کے دور خلافت میں عظیم سانحہ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا رونما ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔ واقعہ کربلا تمام اسلامی تاریخ پر غالب ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی فوج سے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک مان لو۔1۔ مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دو۔2۔ مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاو¿ں۔3۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاو¿ں۔ابن سعد نے تجویز قبول کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دی اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بس ایک بات کی کہ حسین رضی اللہ عنہ بیعت کریں۔ عمر بن سعد نے ہر بات امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی۔ انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر لڑائی چھڑ گئی۔ آپ کے سب ساتھی مظلومانہ شہید ہو گئے۔ دس سے زائد جوان گھر کے تھے۔ اسی اثناءمیں ایک تیر آیا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا۔ اس سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے بلایا اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے اور جس شخص کے ہاتھ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قبیلہ مذحج کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں۔ حج ھانی بن عروہ کا وہی قبیلہ جس نے قصر امارت پر چڑھائی کر دی۔ یہ شخص آپ کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔ اس نے سر مبارک یزید کے پاس بھیج دیا۔ ادھر عمر بن سعد بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا۔ ان کا صرف ایک لڑکا علی بن حسین رضی اللہ عنہ زین العابدین بچا تھا۔ جو اس روایت کے راوی ابو جعفر باقر کے والد تھے۔تاریخ طبری کی روایت میں ہے کہ سنان بن انس نخعی نے شہید کیا اور خولی الاصبحی نے سرکاٹا۔(تاریخ طبری ص246 ج : 14 )اور وہ یہ شعر پڑھتا تھا (میرے اونٹ سونے اور چاندی سے لادو
میں نے ایسے بادشاہ کو قتل کیا ہےجس تک رسائی مشکل ہے ،میں نے ایسے انسان کو مارا جس کے ماں باپ سب سے افضل ہیںاور نسب کے اعتبار سے بہتر ہے)۔واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا نادراور عجیب و غریب واقعہ ہے۔ یہ وہ غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ اس واقعہ کا پس منظر رسول اور اولاد رسول سے دشمنی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top