Saturday 15 October 2016

D H A dengi k narghe mai


ڈی ایچ اے ڈینگی کے نرغے میں

پہلے ذرا اُس بڑھک کا تذکرہ کرلیا جائے جو چوزہ مارکہ سیاست دان نے ماری ہے۔ یہ نومولود سیاست دان ابھی انڈے سے بھی نہیں نکلا اور چلا ہے نوازشریف جیسے ببر شیر کو دھمکیاں دینے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میری مُراد بھٹو خاندان کے توتلے سیاست دان بلاول سے ہے۔ یہ درست ہے کہ بلاول کا تعلق ایک ایسے سیاسی خاندان سے ہے جس میں ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیجنڈ اور زیرک سیاست دان موجود ہے تو دوسری جانب بینظیر جیسی پختہ اور منجھی ہوئی سیاسی شخصیت نظر آرہی ہے جو کہ بلاول کی والدہ بھی تھیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب
ہرگز نہیں کہ بزرگوں اور بڑوں کی پگڑیاں اُچھالنے کی کوشش کی جائے۔ بلاول ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ نوازشریف ایسے دور اندیش اور تجربہ کار سیاست دان کی بابت ایسی گستاخانہ بلکہ احمقانہ بات کرسکے۔ واضح کردوں کہ گستاخی اپنے اختیار میں ہوتی ہے جبکہ حماقت اللہ کی دین ہے۔ چلئیے! یہ تو زرداری کا حق ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو بولنا سکھاتے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کی عمر کے مطابق جملے اُس کے منہ میں ڈالے جائیں۔ بچوں کو زبان دراز بنانے والے والدین بعد میں بہت پچھتاتے ہیں کیونکہ زبان درازی کی یہ لپک پھر اُن کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
معصوم بلاول نے کہا: ”2018ءمیں نوازشریف جیل میں ہوں گے“۔ اگر بلاول کی اس پیشین گوئی کو سچ مان بھی لیا جائے تو پھر بلاول کو یہ ادراک بھی ہونا چاہئے کہ اگر 2018ءمیں نوازشریف جیل میں ہوں گے توکچھ بعید نہیں کہ 2018ءمیں آصف زرداری پھانسی کے تختے پر ہوں۔ کیونکہ بینظیر بھٹو قتل کیس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ اس قتل کے محرکات اور محرک دونوں صیغہ ¿ راز کی برفیلی تہوں کے نیچے دبے ہوتے ہیں لیکن جب گرمیوں کا مقسم آتا ہے تو برفیں پگھل کر پانی ہوجاتی ہیں اور دبی ہوئی تمام چیزیں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی ع
برف جب پگھلی تو نکلے کوہ پیماﺅں کے جسم
بستیاں جیسے اُبھر آتی ہیں سیلابوں کے بعد
جس طرح خواب، حقیقت،
خُلد کے خوابوں کے بعد
بلاول کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔ اس کارخانہ¿ قدرت سب کچھ ممکن ہے ۔ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور سیاست دان کا بیٹا سیاست دان ہی ہو۔ بلاول کو اپنا تجزیہ خودکرنا چاہئے کہ آیا وہ ا س میدان کا گھوڑا ہے بھی یا نہیں۔ باپ تو ہمیشہ بیٹے کو وہی بنانا چاہتا ہے وہ خود ہوتا ہے، بیٹے کو بھی اپنے بارے میں سوچنا چاہئے اور اپنی اہلیت اور قابیت کو پرکھنا چاہئے کہ یہ کس شعبے کے لئے ہے۔
اس کے بعد ذکر آتا ہے میرے مہربان اور مسلم لیگ (ن) کے اہم سیاسی سپوت کا یعنی خواجہ سعد رفیق کا۔ جن کے حلقے میں پورا ڈی ایچ اے، کینٹ ، والٹن روڈ، اقبال پارک، شہرٹاﺅن وغیرہ آتے ہیں۔ آج کل اس پورے علاقے میں ڈینگی دندناتا پھر رہا ہے۔ اس علاقے کے تمام ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے میری بیگم بھی ڈینگی میں مبتلا ہیں۔ لیکن کچھ ہسپتال حکومت پنجاب کے آرڈر کے باوجود ڈینگی کا ٹیسٹ ساڑھے سات روپے میں اور سروس چارجز تین تا چار ہزار روپے یومیہ وصول کر رہے ہیں۔ جو ہم جیسے تنخواہ دار لوگوں کے لئے ممکن نہیں۔ مجبوراً پھر ہمیں کسی گورنمنٹ ہسپتال کی طرف بھاگنا پڑتا ہے چوروں ، لٹیروں پر مبنی عادل ہسپتال سرفہرست ہے۔جہاں عملہ بھی غیر تربیت یافتہ ہے اور ان کے چارجز بھی ناقابل برداشت ہیں۔ دوسرا مسئلہ وہ ڈینگی سروے کی ٹیمیں ہیں جنہیں حکوم پنجاب نے کروڑوں کا بجٹ دیا ہے۔ وہ کاغذی کارروائی کے لئے آ کر ہر گھر سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے گھر میں کسی کو ڈینگی تو نہیں؟ جب دس میں سات گھروں میں ڈینگی کے مریض کی رپورٹ ملتی ہے تو یہ جھوٹی تسلی دے کر رفوچکر ہو جاتی ہیں کہ : ”ابھی ہماری ٹیم آئے گی اور آپ کے گھر کے نواح میں اپنی گرد و پیش میں سپرے کر کے جائے گی اور لاروا کا مکمل خاتمہ کر کے جائے گی۔ لیکن دوبارہ یہ لوگ شکل تک نہیں دکھاتے۔ سپرے نہ ہونے کے باعث پورے ڈی ایچ اے اور کینٹ میں ڈینگی کا وائرس بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے جسے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ محترم خواجہ سعد رفیق سے التماس ہے کہ ایک بار اپنے حلقے کا تفصیلی دورہ کریں۔ باقی مسائل کو چھوڑ کر فی الحال صرف اور صرف ڈینگی پر اپنی توجہ مرکوز فرمائیں۔ جو ہسپتال لوگوں کی کھالیں اتار رہے ہیں ان کی کھال اتارنے کا حکم صادر فرمائیں سروے جو ٹیمیں اپنی ڈیوٹی سے کوتاہی برت رہی ہیں اور حکومت کا پیسہ ہڑپ کر رہی ہیں ان کو لائن حاضر کریں! بصورت دیگر آنے والے دو ماہ میں ڈی ایچ اے اور کینٹ لاہور کا ڈینگی میں متاثرہ سب سے بڑا علاقہ ہو گا اور ذمہ دار اس حلقے کے ایم این اے اور ایم پی اے ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top