Saturday 15 October 2016

Dawre Yazeediyat ko hamesha zawal hai written by Pro Fahmeda kowsar


دور یزید یت کو ہمیشہ زوال ہے

معرکہ کربلا کی بنیاد تو اس وقت ہی پڑگئی تھی کہ جب حکومت کے ظاہری ڈھانچے جو کہ جمہوری روایات‘ حق‘ عدل اور انصاف پر مبنی تھا۔ خلفائے راشدین کے عطا کردہ نظامِ حکومت میں موروثی اور شخصی حکومت کی گنجائش نہ تھی۔ اس ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے موروثیت کا قیام۔ شورائیت کا خاتمہ‘ قومی خزانے کا بے دریغ استعمال اور ذاتی تعیشات میں استعمال ہونے لگا۔ مذہب اسلام نے تو ”امیر“ کے لئے بھی یہ اصول متعین کردیا کہ ”تم میں سے وہ امیر یا حکمران جو اللہ کے پیغام کی طرف بلائے اسکی اطاعت ضروری ہے۔ بلاشبہ وہ نکٹا اور حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی اس بات کا ذکر فرمایا لیکن سانحات وہاں جنم لیتے ہیں جب ان اصولوں
سے انحراف کیا جائے۔اقتدار کی مضبوطی کے لئے جائزو ناجائز ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں اور عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطہ کٹ جائے۔ سانحہ کربلا کے بھی یہی اسباب تھے کہ اُن تمام اصولوں سے روگردانی کی گئی جو کہ استحکامِ ریاست کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ سانحہ کربلا تو حکمران کے کردار پر تفصیلی بحث کرتا ہے کہ ایک حکمران کن خصوصیات اور خوبیوں کا مالک ہو تو اُسکی اطاعت کی جائے جس میں اُسکا اسلامی نظریات کا پابند ہونا لازمی ہے۔ قرارداد مقاصد کی پہلی شق میں ہی اِس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمران‘ والی یا خلیفہ اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے گا۔ ہم نے داخلی اور خارجی طورپر اُن اصولوں پر عمل نہیں کیا جس سے ایک مضبوط حکومت معرضِ وجود میں آئی ہے۔ امام حسینؓ کی قربانی ایک منظم حکومت کے قیام کے لئے کاوش تھی اور اُن محرکات کو سامنے لاتی ہے کہ ہم اُس طریقہ کارکو اپنا کر استحکام پر مبنی ریاست کا عمل وجود میں لاسکتے ہیں۔ بلاشبہ یہ چند اصول انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور نظام شورائیت لازمی حیثیت رکھتی ہے۔اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی حریت فکر‘ انسان دوستی‘ مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا ہے۔یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔ لہٰذا جمہور مسلمان اِ س تبدیلی کو نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لئے حضرت امام حسینؓ اسلامی اصولوں کی پاسداری‘ بقا اور بحالی کےلئے میدانِ عمل میں اُترے تھے۔ نواسہ¿ رسول کی شہادت دراصل اسلامی اصولوں سے انحراف اور تاریخ میں اخلاقی لحاظ سے بدترین مثال ہے۔یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب شخصی‘ ذاتی‘ ملی‘ اخلاقی اور مذہبی مصلحتیں ایک شخص کے تابع ہوجائیں توبگاڑ اور فساد پیدا ہوتا ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہونا دراصل بقائے دین ہی ہے۔ تاریخ نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ حکومتیں جو فسطائیت اور آمریت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں۔ آخر کار اپنے منطقی انجام تک پہنچتی ہیں۔ اُن کے فلک بوس محل مینارے زمین پر دھڑام سے آگرتے ہیں۔ تاریخ دو جمع دو کا فارمولا نہیں ہے کہ من وعن ویسا ہی چلتا رہے گا بلکہ ظالموں کی بیخ کُنی کے لئے پروردگار اسباب پیدا فرماتا رہتا ہے۔ کبھی ابابیلوں کے ذریعہ اور کبھی بدمست ہاتھیوں کے ذریعہ اور اُن حکومتوں کی بیخ کنی کے لئے ایسے لوگوں کو متعین کردیتا ہے جو صالح ہوتے ہیں۔ عملاً جہاد کرتے ہیں اور حق‘ انصاف‘ رواداری‘ مساوات اور جمہوری تقاضوں کی آبیاری کے لئے جان کا نذرانہ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حضرت امام حسینؓ کی مثال ایک عظیم مثال ہے، حکومتوں کی بقا اسلام کے متعین کردہ اصولوں میں ہے۔ وگرنہ انتشار، عدم استحکام، ڈر، خوف اور بزدلی جگہ بنالیتی ہے جو کہ زوال کا آغاز ہوتی ہے۔
یوں معرکہ کربلا اعلیٰ مثال ہے
دورِ یزیدیت کو ہمیشہ زوال ہے

No comments:

Post a Comment

Back to Top