Sunday 16 October 2016

Dhoti written by Mati ullah jan


دھوتی

یہ کہانی ہے ایک ظالم چودھری ، بزدل جرگے ، تیز ہوا اور مجبور میراثی کی۔ دھوتی باندھے گاؤں کا چودھری جرگے کی سربراہی کیلئے نمایاں مقام پر ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا۔ موسم خوشگوار تھا اورہوا تیز چلی۔ چودھری کی دھوتی نے ہوا کا کچھ ایسا ساتھ دیا کہ آسمان کی جانب نظریں اٹھائے مغرور چودھری بے نقاب ہو گیا۔ جرگے کے کسی شریک بزرگ کو چودھری کو خبردار کرنے کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی اور ہوا تھی کہ تھم ہی نہیں رہی تھی۔ جرگے کی ساری توجہ گاؤں کے مسائل سے ہٹ چکی تھی۔ جرگے کے قریب ہی کھڑا ایک میراثی بھی سب کچھ بھانپ گیا۔ کئی بار چودھری کے ہاتھوں پٹنے کے باوجود اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے اونچی آواز میں تالی بجا کر پہلے جرگے کی توجہ حاصل کی اور پھر بلند آواز میں چودھری کو بے پردگی سے متعلق آگاہ کر دیا۔ میراثی کی اس حرکت پر سہمے ہوئے جرگے کے شرکائ￿ اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکے۔ چودھری کی عزت خاک میں مل گئی اور جرگہ برخاست ہو گیا۔ چودھری
نے میراثی کو " مشاورت " کیلئے روک لیا اور جب سب جرگے والے جا چکے تو اس کو اپنے جوتوں اور لاتوں سے گاؤں کے معاملات پر ایسی بریفنگ دی کہ پورے گاؤں نے میراثی کی " تشکرانہ " آوازیں سنیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر گاؤں کے مسئلے تھے کہ ختم نہ ہو رہے تھے اور ہوا تھی کہ تھم نہ رہی تھی۔ چند دن بعد پھر جرگہ ہوا اور وہی ہوا جس کا میراثی کو ڈر تھا ، یعنی عادت سے مجبور میراثی کا ڈر۔ اب کی بار بھی چودھری اوپر کی جانب دیکھ رہا تھا اور جرگے کی شرکاء اس کی متضاد سمت میں۔ میراثی کے زخم ابھی تازہ تھے۔ بات حلق سے باہر آنا چا رہی تھی مگر زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ لڑکھڑاتی زبان سے پھسلتی ہوئی بات جب میراثی کے منہ سے برآمد ہوئی تو ایک چیخ کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ یہی بات آنکھوں کے راستے آنسؤوں کی لڑی بن چکی تھی۔ زخموں سے چور میراثی کی جسم نے ساتھ چھوڑا تو زمین پر لوٹ پوٹ ہونا شروع ہو گیا۔ دھاڑیں مار مار کر رونے والے میراثی سے جب چودھری اور جرگے والوں نے وجہ پوچھی تو وہ اپنے پرانے زخموں کو ڈھانپ کر اور بھی اونچی آواز میں رویا اور چلانا شروع ہو گیا۔ ہوا ابھی بھی تیز چل رہی تھی اور دھوتی بہ دستور چودھری سے زیادہ ہوا کا ساتھ دے رہی تھی۔ میراثی کے بے وقت اور بظاہر بے وجہ چیخنے چلانے پر چودھری نے جب غصے سے وجہ پوچھی تو میراثی آخری بار پھوٹ پھوٹ کر رویا اور کہا " چودھری صاحب جس بلا نے دو دن پہلے سر کڈیا سی تے مینوں بہت مار پئی سی اس بلا نے اج فر سر کڈیا جے ، چودھری صاحب مینوں بچا لو " (چودھری صاحب جس سے مجھے بہت مار پڑی تھی وہ پھر نمودار ہوگیا ہے ، مجھے بچا لیں )
یہ تو محض ایک لطیفہ تھا مگر جس موقعے پر یہ لطیفہ سنایا گیا وہ اس سے بھی بڑا لطیفہ ہے اور اس کی کہانی ہمارے آج کی سیاسی صورتحال کی بہترین عکاسی بھی ہے۔ روزنامہ ڈان میں چھپنے والی سرل المیڈا کی سٹوری پر ردعمل ہو یا سول ملٹری تعلقات کی عمومی صورتحال ہمیں ظالم چودھری ، تیز ہوا اور مجبور میراثی کے کردار ہر طرف نظر آتے ہیں۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کے باہر چند وکلاء نے مسلم لیگ نون کے رہنما اور سینئر وکیل جناب ظفر علی شاہ سے کہاں کہ ایک اور " ظفر علی شاہ کیس " کی صورت حال بنتی نظر آرہی ہے۔ ظفر علی شاہ کیس میں 12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کو چیلنج کیا گیا تھا مگر سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دے دیا۔ بعد میں شاہ صاحب کی اپنی سخت طبعیت یا " اصولی سیاست " کے باعث انکی جماعت نے انہیں سائڈ لائن کر کے رکھا۔ بارلحال جب وکلاء نے شاہ صاحب کو ایک نئے " ظفر علی شاہ کیس " کے حوالے سے پوچھا تو شاہ صاحب نے فورا ہی ہاتھ جوڑ کر اونچی آواز میں کہا کہ "یار ہْن بخش دئیو" (اب معاف کرو) اور جب وکیلوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے میاں صاحب کو ان خطرات سے آگاہ کیا ہے تو شاہ صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر چودھری اور میراثی والا مذکورہ لطیفہ سنا ڈالا اور چلتے بنے۔ "ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے۔۔۔ ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا۔" خیر یہ لطیفہ بے شک تھا مگر اسکے پیچھے ایک واضح سبق ہے۔ وہ یہ ہے کہ گاؤں کے لوگ جب جرگے میں کمزور دل لوگ اور چودھری کے گماشتے بھیجیں گے تو فیصلے جرگہ نہیں چودھری کریگا اور ایسے میں عادت سے مجبور میراثی چودھری کے غرورغافلانہ اور جرگے والوں کی بزدلی یا مظلومیت دونوں کو عیاں کرنے کی پاداش میں مار ہی کھاتا رہے گا۔ مگر میراثی کا ایک کمال یا امتحان یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ چودھری سے متعلق گاؤں میں ہونے والی چہ میگوئیاں طنز و مزاح کے پیرائے میں ایسے بیان کرتا ہے کہ بات بھی ہو جائے اور مار بھی نہ پڑے۔ ایسے ہی میراثی جب اپنا طنز و مزاح کا ہتھیار پھینک کر چودھری کے پاوں پڑ جاتے ہیں تو چودھری انہیں جرگے میں بھی بٹھا لیتا ہے۔ تو جناب اتنی اچھی اور خوشگوار تمہید کے بعد اب بات ہو جائے انگریزی روزنامے کی سٹوری کی۔ کہاجاتا ہے کہ اس سٹوری سے قومی مفاد اور سلامتی کو نقصان پہنچا۔ یہ بات تو سچ ہے کہ سٹوری سے یوں لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت قومی سلامتی کے معاملات میں عسکری قیادت کے سامنے اتنی بے بس ہے کہ چند شدت پسند شخصیات اور تنظیموں کیخلاف کاروائی کیلئے اسے عسکری قیادت کی اجازت اور منظوری درکار ہے اور سٹوری میں یہ تاثر بھی پایا گیا ہے کہ منتخب حکومت کے علاوہ اس ملک میں ایک متوازن عسکری حکومت قائم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے عسکری ادارے خدا نخواستہ اور نعوذباللہ ان شدت پسندوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اب اس طرح کا پیغام اگر دنیا کو جائے گا تو قومی مفاد اور قومی سلامتی کے منافی تو ہو گا۔ تو پھر جناب پیغام کیا جانا چاہیے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔ پیغام تو یہ جانا چاہیے کہ ہماری
سیاسی قیادت اور عسکری حکومت قومی سلامتی اور قومی مفاد کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ اور باصلاحیت ہے جس کے باعث ہماری فوج اسکے حکم پر من و عن عمل کرتی ہے نہ کہ شدت پسند تنظیموں کیخلاف حکومتی کاروائیوں میں روڑے اٹکاتی ہے۔ یہ پیغام بھی دنیا کو جانا چاہیے کہ پاکستان میں کوئی متوازی حکومت قائم نہیں ہے اور فیصلے صرف اور صرف وزیر اعظم پاکستان وفاقی کابینہ کے ذریعے کرتے ہیں۔ تو جناب کیا ہمارے سیاسی قائدین اور عسکری قیادت دنیا کو ایسا ہی اچھا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا سیرل المیڈا کی سٹوری چھپنے سے پہلے ہمارا تاثر اور ہماری سیاسی جمہوری حکومت کی اوقات سے متعلق دنیا کو علم نہیں تھا؟ ان سوالوں کا جواب میرے حلق میں اٹکا ہوا ہے جو زبان کے راستے ایک چیخ کی مانند اورآنکھوں کے راستے آنسووں کی صورت نکلا چاہتا ہے۔ سیرل المیڈا کی سٹوری میں ہمارے دشمنوں کا بیانیہ اگر تھا بھی تو ان دشمنوں کا جو 66 سال سے اپنے گماشتہ صحافیوں اور سیاستدانوں کے ذریعے دْنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی قیادت کرپٹ اور حکومت بے بس ہے اور فیصلے شاہراہ دستور اسلام آباد پر نہیں مال روڈ راولپنڈی پر ہوتے ہیں۔ آخر جمعہ کے روز ہونے والے کور کمانڈرز اجلاس کے بعد جاری پریس ریلیز کو کس کا بیانیہ سمجھا جائے۔ وفاقی حکومت کے ایک وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے باوجود اور حکومتی اجازت اور منظوری کے بغیر کور کمانڈر اجلاس کے بعد بیان کا اجراء کہ جس میں واضح طور پر حکومتی عہدے داروں کی طرف اشارہ کیا جائے سیرل المیڈا کی اس سٹوری اور ہمارے بین الاقوامی دشمنوں کے پراپیگنڈا کی تصدیق کرتا ہے کہ ہماری جمہوریت اور سیاسی حکومتیں شدت پسند تنظیموں اور دوسرے معاملات میں فوج کے آگے بے بس ہیں ، ملک میں ایک متوازی حکومت قائم ہے اور یہ کہ حکومتی وزراء چوروں کی طرح فوج کیخلاف خبریں لیک کرنے پر مجبور۔ ہماری تاریخ اور فوجی آمروں کی عدم احتسابی اور تسلسل سے کور کمانڈرز اجلاسوں کے بعد جاری بیانات جس طریقے سے ہمارے بین الاقوامی دشمنوں کو ہم پر ہنسنے اور پراپیگنڈا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اسکے مقابلہ میں سیرل المیڈا کی سٹوری کچھ بھی نہیں۔ "حکومتی ذرائع" اور "عسکری ذرائع" کے ہتھیار جب تک ایک دوسرے کیخلاف چلتے رہیں گے تو اس وقت تک ہمیں قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کیلئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ جس الزام کو ہم قومی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں ہمیں اپنے ردِ عمل سے اسی الزام کی تصدیق نہیں کردینی چاہیے۔ جب ہوا تیز ہو، جرگہ بزدل ہو اور میراثی مجبور تو چودھری کی ہوش مندی سے "دھوتی والی بات" پورے گاوں میں پھیلنے سے روکی جا سکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ دھوتی کو کَس کے باندھا جائے اور میراثی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جرگے کے بزرگوں سے معذرت کی جائے نہ کہ دھوتی ہی کھول دی جائے۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top