Sunday 16 October 2016

Yuwan special drawing right awr gold reserve written by sultan mehmood hali


یوان سپیشل ڈرائنگ رائٹس اور گولڈ ریزرو
وان چین کی کرنسی ہے۔ اسے رینمینبی بھی کہتے ہیں۔ ایک ڈالر تقریباً چھ یوان کے برابر ہے۔ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آر) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ضمنی غیر ملکی ریزرو کرنسی مقرر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے رکن ممالک ایس ڈی آر سے اپنے ملک کی کرنسی کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔
ایس ڈی آر کا تعین 1970کی دہائی میں کیا گیا جب بیشتر ممالک امر یکی ڈالر سے خائف تھے۔ 2007-08 کے اقتصادی بحران نے ڈالر کو مزید کمزور بنادیا۔ اسی دوران چین جو اقتصادی طاقت
بن کر ابھر رہا تھا اور جسکے زرمبادلہ کے ذخائر کی بڑی ہولڈ نگ میں امریکی ڈالر تھے، نے ناگواری کا اظہار کیا کہ ایس ڈی آر کو ڈالر کے متوازی رکھا گیا تھا جب کہ ڈالر کی قدر و قیمت مسلسل گھٹ رہی تھی۔ ایس ڈی آرکی کرنسی باسکٹ میں ڈالر، یورو، جاپانی ین اور بر طانوی پائونڈ شامل ہیں۔ حالیہ مہنیوں میں ہم نے چین کی جانب سے ایس ڈی آر کی حمایت میں کارروائی دیکھی ہے جس میں چین نے گزارشات پیش کی ہیں اور سونے کی خرید کے بجائے ایس ڈی آر کو فروغ دینے کی سفارش کی گئی۔ آئی ایم ایف کے عملے نے گزشتہ چھ ماہ میں ایس ڈی آر کی حمائت میں متعدد سٹڈیز تیار کی ہیں۔ دوسری جانب چین نے بھی اعلان کیا کہ وہ اپنے بین الاقوامی ذخائز کو متنوع کرنے کے ادارے سے امر یکی ڈالر کے بجائے ایس ڈی آر کے حصول کو ترجیح دیگا۔ اس نے آئی ایم ایف کے ذریعہ ثانوی منڈیوں سے اربوں ایس ڈی آر حاصل کرلیا ہے۔2009 کے اقتصادی بحران کے بعد چین کے پیپلز بینک کے صدر ڈاکٹر چو شیائوچوان نے مجوزہ امر یکی ڈالر کو ایس ڈی آر سے تبدیل کرنے کا مشورہ پیش کیا تھا۔ چین کی جانب سے حالیہ اقدامات اور بیانات اس امر کا ثبوت ہیں کہ چین کی ترجیحات کیا ہیں۔ چین کی اقتصادی ترقی اور یوان کی مضبوطی کے پیش نظر آئی ایم نے فیصلہ کیا کہ اسکی ریزرو کرنسی میں چینی یوان کو بھی شامل کرلیا جائے۔ چین کیلئے یہ اہم سنگ میل ہے کہ اسکی کرنسی عالمی اقتصادی فنڈ کے ریزرو کرنسی کی باسکٹ میں شامل کرلی گئی۔ یہ قدم چین کی عالمی اقتصادی طاقت کو تسلیم کرنے کے برابر ہے۔ 1999 میں پہلی مرتبہ یورو کو اس باسکٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اب یکم اکتوبر 2016کوچینی یوان کو یہ عزت بخشی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ آئی ایم ایف نے چینی یوم آزادی کو یہ اعلان کیا۔ایس ڈی آر میں یوان کی شمولیت چینی کرنسی کی عالمگیریت کاثبوت ہے اور چین کی اقتصادی ترقی، ریفارم اور مالیاتی شعبوں کو دنیا کیلئے کھولنے کے نتائج کی کامیابی کی توثیق ہے۔چین اس موقع کو مزید اقتصادی اصلاحات نافذ کرنے اور اپنی معرفت کو کھولنے اور عالمی ترقی کو فروغ دینے کیلئے استعمال کریگا۔گزشتہ برس ہی آئی ایم ایف نے اعلان کر دیا تھا کہ یوان کو ایس ڈی آر کی باسکٹ میں شامل کر لے گا لہٰذا یوان کی شمولیت کے مثبت اثرات فوری طور پرمالیاتی منڈیوں پہ محسوس نہیں ہونگے لیکن کئی ممالک کے مرکزی بینکوں نے اپنے سرکاری مالی ذخائر میں یوان کو شامل کر لیا ہے۔چین کی اقتصادی پالیسی وضع کرنیوالے ماہرین عملی طور پر دانش مند ہیں اور وہ ایس ڈی آر کی کمزوریوں سے واقف ہیں لہٰذا انہوں نے سفارش کی ہے کہ سونے کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے۔ چین کے پیپلز بینک کے صدر ڈاکٹر چائو شیائو چوان نے بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات کی گزارش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مطلوبہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی ریزرو کر نسی انفرادی ممالک سے منسلک ہونے کہ بجائے مستحکم رہے اور کریڈیٹ کی بنیاد پہ اس کا استعمال حوصلہ افزا ہو۔ انہوں نے سفارش کی کہ ایس ڈی آر کو تقویت اسی وقت حاصل ہو گی جب وہ بنیادی کرنسیوں سے منقطع ہو کر خود مختار ریزروکرنسی کے طور پر کام کرنے لگے۔چین کی جانب سے اشیائی انفراسٹرکچر انویسٹ مینٹ بینکAIIBکے قیام سے عالمی بینک کو مقابلے کا سامنا ہو گا۔ عالمی بینک پہ امریکہ کا وسیع کنٹرول ہے۔ AIIBکے انعقاد سے عالمی بینک سے ٹکرائو مقصود نہیں لیکن بین الاقوامی مالیا تی نظام پہ ڈالر کی گرفت کمزور ضرور ہو گی۔ عالمی برادری کی جانب سے AIIB کیلئے حمایت اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ چین کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دو برسوں میں چین نے بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کی خاطر مختلف ملکوں سے تجارتی معاہدے طے کئے ہیں۔ اس کا دوررس نتیجہ یہ ہو گا کہ بین الاقوامی تجارت میں ڈالر پہ انحصار میں کمی واقع ہو گی اور ایس ڈی آر پہ انحصار میں اضافہ ہو گا۔دور اندیشی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایس ڈی آر کو قوی بنانے کے ساتھ اپنے گولڈ ریزرو میں بھی اضافہ کیا جائے۔ اسی ڈی آر کو تقویت دینے کی سعی میں روس بھی چین کا ساتھ دے رہا ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ ڈالر کی ساکھ بچانے کی خاطر امریکہ اسی ڈی آر کو قوت بخشنے کے اقدامات کو ویٹو کر دے۔ اگر ایس ڈی آر کا انحصار صرف ڈالر، یورو، جاپانی ین، برطانوی پائونڈ اور چینی ین پہ رہا تو آپس کی چپقلش کے باعث ایس ڈی آر کمزور رہے گا لہٰذا اس کو سونے سے منسلک کرنا سود مند ہو گا۔ اقتصادیات میں نوبیل انعام یافتہ رابرٹ منڈیل نے 1997میں اپنے ایک لیکچر بعنوان ’’اکیسویں صدی میں بین الاقوامی مالیاتی نظام اور گولڈ کی ممکنہ واپسی‘‘ میں انکشاف کیا تھا کہ امریکہ ایک سو پر پاور کی حیثیت سے کبھی بھی بین الاقوامی مالیاتی اصلاحات سے متعلق بات نہیں کریگا جب تک کہ اسے ڈالر کی اجارہ داری کو خطرہ نہ محسوس ہو۔ امریکہ کبھی بھی متبادل اقتصادی نظام کی حمایت نہیں کریگا کیونکہ موجودہ نظام میں امریکہ کو برتری حاصل ہے۔ عالمی معیشت کی پیچیدہ صورتحال کے پیش نظر روس، چین اور بھارت تقریباً 9000 ٹن سونا ذخیرہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چین کے پاس تقریباً 18000ٹن سونا ہے جبکہ امریکہ کے پاس 8000 ٹن اور یورپین یونین کے پاس 11,000ٹن سونا محفوظ ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پہ سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا اور اغلب ہے کہ چینی اقتصادی ماہرین کی دور اندیشی کے پیش نظر ایس ڈی آر کا بھی سونے پہ انحصار بڑھ جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو چین ایک مستحکم پوزیشن میں ہو گا۔کاش پاکستانی ماہرین اقتصادیات بھی چین سے کوئی سبق حاصل کریں۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top