Saturday 15 October 2016

Habar ki talash mai Wazir azam k sath written by Mujahid Barailvi

خبر کی تلاش میں وزیر اعظم کے ساتھ

انگریزی اخبار ڈان کی ہنگامہ خیز خبر اور تحریک انصاف کے 30 اکتوبر کے ”اسلام آباد بند“ کے بیچ جب وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ آذربائیجان کے تین روزہ دورے کی دعوت ملی۔ تو خیال یہی تھا کہ نور خان ائربیس کے لاﺅنج ہی سے بریکنگ نیوز ملنا شروع ہو جائیں گی۔ مگر لاﺅنج میں اپنی میڈیا ٹیم کے علاوہ کوئی وزیر، مشیر رکن اسمبلی نظر نہیں آیا جو اپنے بھولے پن یا پھر بڑھک پن میں ایسی خبر اگل دیتا جس کے اس وقت ہم متلاشی تھے۔ ہمارے بزرگ صحافی دوست وزیراعظم کے مشیر خاص عرفان صدیقی اور خارجہ امور کے مشیر فاطمی صاحب ان مشیروں، وزیروں کے زمرے میں نہیں آتے جو ہمارے جھانسے میں آ جائیں۔ اسلام آباد سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کا کوئی
ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ہے۔ دائیں ہاتھ پر ایک نشست آگے وزیراعظم اور ان کی بیگم کلثوم نواز بیٹھی تھیں۔ مگر جھوٹ کیوں بولیں ہماری ان سے لاہور اور اسلام آباد کے دیگر معتبر صحافیوں کی طرح اتنی شناسائی نہیں کہ سن گن لیتے۔ سو اسلام آباد سے باکو کا سارا سفر بے خبری میں گزرا۔ ساتھ بیٹھی ایک سینئر صحافی ضرور اس بارے میں بہت فکرمند تھیں کہ ان کے ایک برادر صحافی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے حالانکہ پکڑ تو ان کی ہونی چاہئے جنہوں نے بقول شخصے یہ خبر ”لیک“ کی جس نے ہفتے بھر سے بھاری بھرکم مینڈیٹ کے بوجھ تلے دبی حکمران جماعت کو دہلایا ہوا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے میں چند ہفتے رہتے ہیں معروف اصطلاح میں یہ خبر کوئی سوچی سمجھی سازش تو نہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کے گزشتہ یعنی اپریل 2014ءکے دھرنے کی ناکامی کے بعد ”پنڈی آب پارہ“ کے حکمران جماعت سے تعلقات ٹھیک ٹھاک ہی چل رہے تھے۔ رہا پانامہ لیکس‘ جس پر تحریک انصاف کے سربراہ نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے اور جس پر رائے ونڈ میں ہونے والا تحریک انصاف کا جلسہ بھی کامیاب رہا مگر اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ایک بڑے جلسے کی بنیاد پر بہرحال شریف حکومت کو گھر نہیں بھیجا جا سکتا کہ وطن عزیز میں ”کرپشن“ کوئی ہمالیہ پہاڑ جیسا مسئلہ نہیں اس حمام میں ساری سیاسی جماعتیں ہی ننگی ہیں۔ یوں انگریزی اخبار کی خبر جہاں سیاسی، عسکری قیادت کے درمیان ایک بڑا ڈیڈ لاک بننے کا سبب بنی وہیں ہمارے عمران خان صاحب کے لئے بھی بارانِ رحمت بنی ہے کہ ان کے قریبی مشیران کرام باقاعدہ اس مہم میں مصروف ہیں کہ ”اس واری شریفاں نے نئیں بچناں“کہ ایک تو ان کو اب تک محفوظ رکھنے والے برادر جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا وقت آپہنچا ہے۔ دوسرے اسٹیبلشمنٹ یہ طے کئے بیٹھی ہے کہ چوتھی بار بھی شریف برادران کو 2018ءکے الیکشن میں ”میٹھا میٹھا ہپ ہپ“ یعنی دو تہائی اکثریت سے آنے نہیں دے گی۔ یہ لیجئے باکو ائرپورٹ کیلئے جہاز لینڈ کر رہا ہے....! کوشش جاری رہے گی کہ اس ملین بلکہ بلین ڈالر کی خبر بریک کر سکوں کہ انگریزی اخبار کے صحافی کو ”خبر“ کس نے دی....
باکو کی پرشکوہ عمارتوں کو دیکھتے سرسبز و شاداب درختوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی شاہراہوں سے ہوتے ہوئے جب ہوٹل پہنچے.... تو ہمارے مربی پریس سیکرٹری وانی صاحب نے یہ خوش کن خبر دی کہ ساری شام اور شب راوی نے آپ کی تفریح کیلئے رکھ دی ہے۔ مگر جملہ بڑا سخت گزرے گا کہ صبح 9 بجے صدارتی محل پہنچنا ہے جہاں وزیراعظم نواز شریف اور صدر آذربائیجان کے درمیان باضابطہ مذاکرات ہوں گے اور ساتھ ہی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہو گا۔ ترقی کے بارے میں ہم نے ضرور سنا تھا کہ وہاں حکمرانوں سے لے کر ایک عام آدمی پاکستانیوں کیلئے باہیں پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں سربراہان مملکت کے ساتھ جانا ہوا۔ مگر حقیقتاً صدر آذربائیجان کی میزبانی اور شاہراہوں چوکوں میں ایک عام آدمی کے چہرے سے چھلکتی مسکراہٹوں سے لگا کہ اس خطے میں چین کے بعد آذربائیجان مستقبل قریب میں ایک بڑا قریبی دوست بن کر سامنے آئے گا۔ صدارتی محل کی روایتی تقریب کے بعد ”باکو“ یونیورسٹی میں وزیراعظم کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنا بھی بڑا خوش کن منظر تھا.... مگر ہمارا میڈیا ان تمام ”اچھا اچھا“ کی خبروں سے بے نیاز ابھی تک اسی جستجو میں ہے کہ ”پانچ بڑوں“ میں کس نے ڈان کو خبر لیک کی۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top