Saturday 15 October 2016

kia sofi o mula ko habar meri junon ki written by Dr Maqsood jafri


کیا صوفی و ملا کو خبر میری جنوں کی
افلاطون اعیان و عرفان کا پر چارک تھا۔ سقراط توحید و نیکی کا علم بردار تھا۔ارسطو عقل و منطق کا حامی تھا۔ اشعریہ ایمان باالغیب کے مبصر و مفسیر کے روپ میں روحانیت کا روپ دھارا۔ مذہبی انتہا پسندی سے دور محبت اور انسان دوستی کا درس دیا، علماءو فقہا مسلکی تعبیروں میں اتنا الجھے کہ بقول حافظ شیرازی ”شد پریشاں خواب من از کژت تعبیر ھا“۔ بعض شعبدہ باز صوفیوں کی اہلیت نے سلفی مکتبہ فکر کو جنم دیا۔رد عمل میں ولایت سے ہی انکار کردیا۔ پال بلحائیمر اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ تحت کائنات صلیب ہے وہ روحانی مکاشفوں میں ”روح مقدس“کے نزواہ اور اثرات کے قائل ہیں میتھیو کی بائیل رقم ہے خوت مسیح ؑ نے اپنے
حواریوں سے فرمایا۔”جو کوئی بھی میری پیروی کرنا چاہتا ہے وہ اپنی ذات کی نفی کرے اور اپنی صلیب اٹھا کر میرے پیچھے چلے“۔نفی ذات کا تصور جب غلط لیا گےا تو رہبانیت نے جنم لیا حالانکہ نفی ذات سے حضرت مسیح ؑ کی مراد تکبرو غرور اور کبرو نخوت کی نفی تھی جو انسان کو ولی کامل بناتی ہے اور اپنے رب سے ملاتی ہے قرآن مجید میں ”جاءالحق وزھق الباطل“کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ حق کا متضاد لفظ باطل ہے عربی زبان میں حق صداقت و عدل کے معنوں میں بھی مستعمل ہے حق کا ساتھ دینا اصل میں صداقت کا ساتھ دینا ہے عدل کا متصاد لفظ ظلم ہے بعض عرب دانوں نے لغوی معنوں سے ہٹ کر معنویت کی روکے پیش نظر حق کے لفظ کو خدا کے معنوں میں بھی لیا ہے جب حسین بن منصور کو سزا دینا ملائیت کی ضرورت بتا تو اس کے نعرہ مستانہ کو نقارہ کا فرانہ اور آواز ملحدانہ قرار دینے کے لئے ”ناالحق“ کا ترجمہ ”میں صداقت ہوں“ کی بجائے ”میں خدا ہوں“ کرکے اس کی گردن سر سے جدا کر کے اس کے لاش بھی جلادی گئی میں اکثر سوچتا ہوں کہ زاہدان خشک اور علمائے شریعت کی قبروں کے نشان تک نہیں ملتے مگر مجذوبوں، سالکوں، ولیوں، ابدالوں اور درویشوں کے مزارات مرجمع خلائق ہیں، اس کی کیا وجہ ہے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ”رفعنالک ذکرک“ کے طفیل اﷲ ان عاشقان محمد مصطفٰی کے ذکر کو بھی قلوب درویشاں اور مردم خستہ دلاں میں جاری کردیتا ہے۔مسلمانوں میں سیاسی واثت نے ملوکیت ،مذہبی نے ملائیت او ررحانی نے خانقاہت کا غیر قرآنی نظام فکر و عمل دیا۔ جس طرح ملائیت میں منازل و درجات ہیں اس طرح تصوف میں بھی یہی سلسلہ ہے مولوی، ملانا، واعظ، مفتی اعظم، حجة الاسلام و المسلمین، مجہد اور مجہد اعظم مختلف مسالک درینہ کے مدارج ہیں، تصوف میں فقیر، سالک، عارف، ابدال، شیخ المشایخ، غوث، قطب، درویش اور مجذوب کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ملامتی صوفی وہ ہوتا ہے جو بظاہر کفر والی دمیں غلطان و پیچان نظرآتا ہے مگر بیاطن وہ صوفی صافی او رمومن کامل ہوتا ہے وہ ملائیت کی ظاہر داری اور فریب کاری کے خلاف نفرت و بغاوت کا اظہار و اعلان کرتا ہے اکثر صوفی شعراءنے ملامتی صوفی کا کردار ادا کیا بظاہر مذہب بے بے زاری نظر آتی ہے جبکہ درحقیقت وہ حقہ باز اور فریب کارو ملمع ساز صوفیوں اور مولویوں کے خلاف استہزاءاور اظہار زاری ہے امیر خسرو، میر تقی میر، غالب، بابا بلھے شاہ سے بغاوت عیاں ہے عہد قدیم میں حسین بن منصور ملاج کی مثال بطور صوفی پیش کی جاسکتی ہے۔ وہ ملامتی صوفی تھے ملائیت و ملوکیت کے خلاف تھے جنید بغدادی کے حلقہ تلمذ میں شریک رہے تین بار حج کی سعادت حاصل کی کی ایسا شخص زندیق و کافر یا ملحد ہوسکتا ہے انہوں نے نظم و نثر میں حلول خدا،حقیقت محمدیہ کا قدم اور توحید ادیان کے عقائد کا اظہار کیا۔انہوں نے ”انا الحق“ کا نعرہ لگایا جس کا مطلب ہے ”میں سچائی ہوں“ قرآن مجید کی آیت ہے ’فاحکم بین الناس باالحق“ لوگوں کے درمیان صداقت وعدل سے فیصلے کرو۔ ”حق“ عربی زبان میں صداقت اورع عدل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ حسین بن منصور حلاج ملائیت و ملوکیت کے خلاف تھا اسے سیاسی و مذہبی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ملا ابن داو¿د الاصفہانی الظاہری نے کفر کا فتویٰ دیا اور اس کا سرتن سے جدا کردیا گےا یہی معاملہ اورنگ زیب شاہنشاہ ہند نے مولویوی کے مشورہ پر سرمد شہید کے ساتھ کیا وہ مجذوب تھا اس کی رباعیات جذب و کیف و سرمستی کا مرقع ہیں ملامتی صوفی تھا عالم جذب میں کلمات کفر کہہ جاتا اورنگ زیب کے عہد میں مولویوں کی تحریک پر شرعی مدنافذ ہوئی سولی پر لٹکا دیا گےا جامع مسجد دہلی کے نزدیک مدفون ہے حسین بن منصور اور سرمد شہید کی قبریں زیارت گاہ عوام ہیں مولوی گمنام ہیں خدا کا راز خدا ہی جانتا ہے۔ قرآن کے ”نطام مشاورت“ اسلامی جمہوریت اور قل العفو ”نظام مساوات“ ہے باقی سب جنون و افسوں ہے صوفیاءکی دو اقسام ہیں متشرع صوفی اور ملامتی صوفی۔ برصغیر میں حضرت نظام الدین اولیاء،حضرت معین الدین چشتی اجمیری اور حضرت داتا گنج بخش متشرع صوفیاءکے زمرے میں آتے ہیں۔ داتا گنج بخش ہجویری کا تفیف ”کشف المحجوب“ فلسفہ تصوف اور شریعت محمدیہ پر گامزن رہ کر مقام حقیقت کا طلب گار ہوتا ہے۔ امام غزالی شریعت کی جسم اور طریقت کا طلب گار ہوتا ہے امام غزالی شریعت کو جسم اور طریقت کو روح دین قرار دیتے ہیں متشرع صوفی کے ہوش و حواس قائم ہوتے ہیں جبکہ مجذوب مقام حال و جلال پر ہوتا ہے اور بہ ظاہر دیوانہ نظرآتا ہے لیکن بباطن فرزانہ ہوتا ہوتا ہے بہلول دیوانہ، بابا لعل شاہ آف سوراسی کوہ مری اور سائیں سہیلی سرکار آف مظفرآباد آزاد کشمیر مجذوب تھے حقیقت تصوف ادراک الہی او رخدمت مخلوق خدا ہے۔ توحید و انسانیت ان کا مدعا ہے فرقہ واریت اور فقہی و مسلکی اختلافات و تنازعات سے اولیاءاﷲ دور ہیں اور چشم روحانیت و انسانیت کا نور ہیں دراصل حامیان شریعت، سالکان طریقت اور طالبان حقیقت ایک ہی منزل کے راہرو ور خواستگار ہیں مگر جادو منزل اپنا اپنا ہے مولانا رومی بھی متشرع صوفی تھے لیکن کہیں کہیں وہ ترنگ میں ملائیت کی نفی کرتے ہوئے آزادانہ و تنقیدانہ روش پر دکھائی دیتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کے باقی امام خیمنی بھی متشرع صوفی تھے لیکن وہ روایتی قبیلہ غلامی و شاہی کے اسیر جاہ طلب اور فریب کار مذہبی شخصیات کے بارے میں اپنے کلام میں مزاحمتی طرز پر یوں رقم طراز ہیں
فارغ از خود شدم و کوس انا الحق بزدم
ھمچو منصور خریدار سردار شدم
در میخانہ گشاید برویم شب و روز
کہ من از مسجد و از مدرسہ بے زار شدم

No comments:

Post a Comment

Back to Top