Saturday 15 October 2016

Zahid Malak jaha b gaye dastaan chor aye written by Iftikhar majaz


زاہد ملک ۔۔۔۔۔جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے

یادش بخیر، یہ جنوری یا فروری 1975ءکی بات ہے۔ وزارت اطلاعات کے ایک ذیلی محکمہ پاکستان نیشنل سنٹر سیالکوٹ میں احباب کی ایک محفل جمی ہوئی ہے، خوش گپیاں ہو رہی ہیں، قہقہے لگ رہے ہیں بے تکلف ماحول میں کوئی لطیفہ سنا رہا ہے کسی کی طرف سے دلچسپ اور سچا واقعہ آرہا ہے کوئی حسب موقع اور برمحل شعر پیش کررہا ہے ایسے میں مرکزی نشست پر فروکش، ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ، ٹائی میں ملبوس جاذب نظر شخصیت والے صاحب ایک سچے واقعہ کا بیان شروع کرتے ہیں۔ ”ایک مرتبہ حضرت علامہ اقبال ریل گاڑی
میں لاہور سے سیالکوٹ جارہے تھے۔ وزیرآباد سٹیشن پر گاڑی رکی تو علامہ کے بھائی شیخ آفتاب جو اسی گاڑی کے کسی دوسرے ڈبے میں سوار تھے علامہ کے پاس تشریف لائے اور انہیں کھانے کی کچھ اشیاءپیش کیں۔ شیخ آفتاب صاحب کے اس اقدام سے علامہ اقبال کے ہمنشیں مسافر کو علم ہوا کہ وہ کس کی ہمسائیگی میں محو سفر ہے چنانچہ اس نے علامہ صاحب کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر ان سے پر جوش مصافحہ کیا اور پھر فرط عقیدت سے علامہ کے ہاتھوں کو چوم لیا اور اسکے بعد دونوں کے درمیان گپ شپ شروع ہوگئی، اس دوران علامہ صاحب کو سگریٹ پینے کی طلب ہوئی، آپ نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور اس کا ڈھکن کھول کر اپنے ساتھ مسافر کی طرف بڑھائی، جس نے ڈبیا میں سے ایک سگریٹ نکال لیا۔ جب علامہ نے اپنے منہ میں سگریٹ دیا کر جلانے کے لئے جیب سے ماچس نکالی تو دیکھا کہ اس ساتھ مسافر نے سگریٹ منہ میں رکھنے کی بجائے جیب میں ڈال لی ہے اس پر علامہ نے اس سے پوچھا، آپ نے سگریٹ جیب میں کیوں رکھ لی، سلگاتے کیوں نہیں؟ وہ شخص گویا ہوا، آپ سے ملنے والی یہ سگریٹ میرے لئے بہت یادگار ہے اسے میں ہمیشہ محفوظ رکھوں گا۔ علامہ نے دیکھا فرط عقیدت سے اس شص کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آواز گلوگیر، علامہ نے جیب سے دوبارہ سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور کہا ٹھیک ہے آپ وہ سگریٹ رکھیں اور یہ ایک اور لیں اور میرے ساتھ اسے پیں.... جونہی اس سوٹڈڈ بوٹڈ شخص نے واقعہ کا بیان مکمل کیا سب حاضرین نے خوب واہ واہ کی، میں جو اس نشست کا سب سے کم عمر اور جونیر سامع تھا، اپنی نشست سے کھڑے ہو کر یکدم گویا ہوا، ”وہ کوئی بڑا ہی بے وقوف اوراڈیٹ شخص تھا“ واقعہ سنانے والی شخصیت نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا“ اگر اسکی جگہ تم ہوتے تو کیا کرتے؟ ”میں علامہ سے پوری سگریٹ کی ڈیبا لے لیتا“ میرے اس جواب پر نشست میں ایک بھرپور اور طویل قہقہہ پڑا.... اور جونہی یہ قہقہہ تھما۔ داستان گونے اپنے سامنے کی نشست پر فروکش سنٹر کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر سے پوچھا ریذیڈنٹ ڈائریکٹر اعزاز احمد آذر نے، انہیں بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی افتخار مجاز ہے اور لاہور کے ایک کالج میں بی اے کا طالب علم ہے متذکرہ شخصیت نے خود آگے بڑھ کر میرا کندھا تھپتھپایا اور آذر بھائی سے مخاطب ہو کر کہا، جمدیاں سولاں دے منہ ترکھے ہندے نیں۔
یہ ریمارکس دینے والے اسوقت وزارت اطلاعات حکومت پاکستان میں جوائنٹ سیکرٹری اور پاکستان نیشنل سنٹرز کے ڈائریکٹر جنرل زاہد ملک تھے اور یہی میرا ان سے پہلا تعارف اور ملاقات تھی۔ سچی بات ہے کہ جب انہوں نے میرے بارے میں متذکرہ بالا Comments دئیے تو مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ انہوں نے داد دی ہے یا بے داد لیکن اس کے بعد زندگی بھر ان سے ملنے والی محبت و شفقت سے میں جان گیا تھا کہ انہوں نے اسوقت میرے لئے ”کلمہ خیر“ ہی کہا تھا، مجھے داد ہی دی تھی۔زاہد ملک صاحب کی رحلت ہوئی تو مجھے انکی شخصیت و کردار سے جڑے ہوئے کئی واقعات یاد آئے، جس سے انکی وطن سے محبت، دین داری، اسلام سے شیفتگی، انسانیت سے پیار علمی فکری بصیرت، اعلیٰ ظرفی کا اظہار ہوتا ہے، وہ بھلے وقتوں میں حکومت پاکستان کے ”پے رول“ پہ آئے، یادگار زمانہ لوگوں کے ساتھ کام کیا بڑے بڑے اہل علم و فن سے دوستیاں رہیں، مگر روایتی کروفر، پھوں پھاں اور افسرانہ تمکنت کو کبھی پاس نہ آنے دیا۔
میں پاکستان ٹیلی ویژن میں تھا تو میرا ان سے بہت واسطہ رہتا تھا دفتر میں ہمارے ساتھی مرحوم، بشیر بٹ، ٹیلی فون ملاتے اور سنتے تھے اکثر و بیشتر انہی کے توسط سے میرا زاہد ملک صاحب سے رابطہ اور گفتگو ہوتی، ایک روز بٹ صاحب مجھ سے کہنے لگے، مجاز صاحب اسلام آباد سے زاہد ملک صاحب کا فون آیا تھا، پھر پوچھنے لگے، میرا یہ بتائیں یہ ملک صاحب ”مانا“ (نک نیم) ہے ناں....؟ مجھے معلوم نہ تھا، بہر طور جب اگلے روز زاہد ملک صاحب سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا ”ملک صاحب! آپ کسی مانے“ کو جانتے ہیں جواباً بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ”اوئے! یہ بشیر بٹ آپ کو کہاں ملا۔ کہاں ہوتا ہے، کیا کرتا، یہ یقینا ”مانے“ والا نام اسی نے آپکو بتایا ہوگا.... جب میںنے انہیں بتایا کہ بٹ صاحب قبلہ ہمارے کرنٹ فیرز ڈیپارٹمنٹ کے عملہ میں شامل ہیں تو مجھے تفصیل بتانے لگے، سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے نواحی گاﺅںجھیٹے کے میں بشیر میرا ہمسایہ، گہرا دوست، کلاس فیلو اور محلے دار تھا۔ سکول سے واپس آکر ہم انہی کے گھر میں کھیلا کرتے تھے اور صرف وہی میرے اس گھریلو اور نک نیم سے واقف تھا اسلئے میں نے اسے فوراً پہنچان لیا، آپکو کوئی تفصیل بتانے اور تعارف کرانے کی ضرورت نہیں پڑی، میری دانست میں یہی ایک واقعہ بہت کافی ہے اس بات کو سمجھنے کے لئے، وہ کیسے محبت کرنے والے اپنی اوقات اور اصل کو یاد رکھنے والے انسان تھے۔ یہ خوبیاں، بجا طور با کمال اہل ظرف شخصیات میں ہی ہوتی ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے اپنی کچھ دوسری کتابوں کے ہمراہ اپنی بے پناہ محنت سے مرتب کی گئی کتاب مضامین قرآن حکیم، بھجوائی، یہ میرے لئے بجائے خود ایک اعزاز تھا، حسن اتفاق ان دنوں میں پاکستان ٹیلی ویژن نیوز سے ایک ہفتہ وارپروگرام کتاب بھی پیش کرتا تھا۔ جسمیں اچھی عمدہ معیاری اور Contentکے حوالے سے متاثر کرنے والی کتابوںپر سیر حاصل گفتگو کی جاتی تھی میں نے اسی پروگرام کیلئے انکی کتاب مضامین قرآن حکیم پر ایک خصوصی پروگرام پیش کرنے کی خواہش لیکر انہیں فون کیا، مگر وہ میرے بار بار اصرار کے باوجود اپنے اس کام پر ٹیلی ویژن پروگرام کیلئے آمادہ نہ ہو رہے تھے، انہیں نہ ستائش مقصود تھی نہ وہ تشہیر کے طالب تھے۔ کیونکہ بقول انکے انہوں نے یہ کام اپنے رب کی خشنودی، پیغام قرآن کے بہتر ابلاغ اور روز محشر نبی کریم کی شفاعت حاصل کرنے کیلئے کیا تھا، مختصر یہ کہ میں انہیں بالآخر ٹیلی ویژن پروگرام کیلئے قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا، وہ اپنے ٹکٹ پر اسلام آباد سے لاہور میری درخواست پر آئے۔ مجھ سے انکی شفقت، محبت اور پیار کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ میں انکے دوستوں اور کلاس فیلوز ڈاکٹر مسکین علی حجازی( مرحوم) اور پروفیسر وارث میر کا چہیتا شاگرد تھا، جناب زاہد ملک کے داعی اجل کو لبیک کہنے سے علم و بصیرت اور فکرو آگہی کا روشن مینار ہم سے چھن گیا ہے تاہم امید ہے جو روشنی انہوں نے پھیلائی اس سے معاشرہ منور ہوتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایسے ہی مزید آبگینے بھیجتا رہے گا، مگر بقول ریاض مجید، آنے والے،آئیں گے لیکن خلاءرہ جائے گا!

No comments:

Post a Comment

Back to Top