Friday 14 October 2016

Maqbooza kashmir mai bharti mazalim se mutaliq pakistani dastawizat ka jayeza le rahe hai America


مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سے متعلق پاکستانی دستا ویزات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ امریکہ

واشنگٹن:امریکا نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق پاکستانی دستاویزات کا جائزہ لینے کا عندیہ د یتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ رپورٹ کی تیاری میں دیکھا جائے گا کہ کہاں کہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے.پاکستان اور بھارت کشیدگی کے خاتمے کیلئے کوششیں کریں ، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات اور تعاون ہی دونوں ملکوں کے وسیع تر مفاد میں ہے.کشمیر سے متعلق امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، خواہش ہے ، خطے کے مفاد کے لیے دونوں ممالک میں مصالحت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ پاکستانی دستاویزات کے شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں  تاہم اسے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی عالمی رپورٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔ ان کا کہنا تھا امریکا پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی متنازع معاملات چل رہے ہیں، خطے کے مفاد کے لیے دونوں ممالک میں مصالحت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر سے متعلق امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، امریکا کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک آپس کے تنازعات کو مذاکرات سے حل کریں اسی میں دونوں کا مفاد ہے۔جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید سے متعلق پوچھے گئے سوال پر مارک ٹونر نے تبصرے سے گریز کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ حافظ سعید اور لشکر طیبہ کو دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے اور لشکر طیبہ امریکیوں سمیت سیکڑوں معصوم افراد کے قتل میں ملوث ہے ،جبکہ افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و امان پورے خطے کے مفاد میں ہے ۔نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے طالبان کو افغان سیکورٹی فورسز کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ ہلمند پر طالبان کا حملہ افغانستان میں امن کے لیے خطرہ ہے ۔واضح رہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے امریکا بھیجے گئے وفد نے امریکی حکام اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں سو سے زائد افراد کے قتل اور ہزاروں کے زخمی ہونے سے متعلق دستاویزی رپورٹ پیش کی تھی۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top