Saturday 15 October 2016

Sar Rahai سر راہے 15-10-2016



سات سالہ پاکستانی نژاد بچے کو حرام کھانے سے انکار پر ساتھیوں نے پیٹ ڈالا‘ ٹرمپ کا امریکہ مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا، تنگ آ کر خاندان پاکستان آ گیا۔
سنا کرتے تھے دیو کے آنے سے قبل مینہ، آندھی اور طوفان آتا ہے۔ ٹرمپ کی صورت میں مسلمانوں کیلئے طوفان جیسی وارننگ آ گئی ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے امکانات کم ہی سہی مگر موجود ضرور ہیں۔ وہ صدر بننے پر مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا سلوک کرنا چاہتے ہیں اس کا سلسلہ ٹرمپ ذہنیت کے امریکیوں نے شروع کر دیا ہے۔ ایسے شدت پسند امریکیوں کے بچے بھی ان کی طرح ری ایکٹ کر رہے ہیں۔ ذیشان پر تشدد کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دینا اسی ذہنیت کا اظہار ہے۔ ٹرمپ نے خود کو مخبوط الحواس
ثابت کیا ہے۔ وہ ہیلری سے دونوں مذاکروں میں ”پھس“ ہو گئے۔ وہ زبان درازی ہی نہیں کرتے زبان طرازی میں بھی تیز ہیں۔ جوانی کے اپنے عشقیہ قصوں کی فحش گوئی سے حظ اٹھاتے ہیں۔ جدید اور مہذب امریکی معاشرے میں ایسے شخص کی پذیرائی ممکن نہیں، مگر سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ تو کانگریس میں ہیں انہوں نے سعودی عرب کے خلاف فاسٹا قانون 76 ووٹوں کے مقابلے میں 348 ووٹوں سے اسلام دشمنی کی بناءپر منظور کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ ٹرمپ کے کردار اور کرتوتوں کے باعث تو اوباما کے بقول ایسے شخص کو کوئی دکان پر بھی ملازم نہ رکھے۔ واقعی کوئی ملازم نہ رکھے تاہم اوبامہ اس کو امریکن ضرور بنا دیں کہ یہ مسلمانوں کے پیچھے پنجے جھاڑ کر، ڈریکولا دانت نکال کر بلکہ کفن پھاڑ پڑا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو ہوا کا رخ بھانپ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینا چاہئیے کہ گرین کارڈ سے دل کو تسلی ملتی ہے یا گرین پاسپورٹ سے عزت ملتی ہے۔ سات سال تو کجا‘ آپ بدیس میں ستر سال بھی رہیں تو اجنبی رہیں گے۔ بچے شادی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو مغربی ماحول سے پاکستانیوں کو الجھن ہونے لگتی ہے۔ مرتے ہیں تو پاکستان میں دفن کرنے کی وصیت سامنے آ جاتی ہے۔ پاکستان کو مردوں کی نہیں زندوں کی سرزمین بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، بھیا!
....٭....٭....٭....٭....
گونگے بہرے شخص سے سینکڑوں گولیاں برآمد
خبر کا پہلا حصہ پڑھا تو لگا کہ گونگے بہرے شخص کی تلاشی کے دوران پولیس نے نشہ آور گولیاں برآمد کی ہونگی مگر آگے جا کے معلوم ہوا کہ ایل ایم جی کی گولیاں تھیں جبکہ گولیاں چلانے والا اس کے پاس ہتھیار، نہیں تھا۔ شاید غلیل سے شکار کرنے کیلئے کہیں سے گولیاں لی ہونگی۔ پولیس کبھی کبھی ایسا ”مسالہ“ کسی پر ڈال دیتی ہے۔ اب چونکہ پولیس مہذب، تعلیم یافتہ اور گریڈ بڑھنے پر راشی بھی نہیں رہی۔ اس لئے اس نے اصل ”مجرم“ ہی پکڑا ہو گا۔ اس سے تفتیش کس طرح کی ہو گی؟ اس پر ایک تحریر یاد آ گئی۔ ایک انڈر ورلڈ مافیا نے گونگے بہرے کو اپنا اکاﺅنٹنٹ اس لئے تعینات کیا تھا کہ وہ باس کے رازوں سے آگاہ نہ ہو سکے۔ اس اکاﺅنٹنٹ نے 20 لاکھ کا غبن کر لیا۔ باس کو تشویش ہوئی۔ پوچھ گچھ کیلئے اشاروں سے باتیں کرنیوالے ترجمان کو بلا لیا۔ اس نے اشاروں سے پوچھا غبن کی رقم کہاں ہے تو اشاروں میں جواب ملا غبن ہی نہیں کیا تو رقم کہاں سے آئے گی اور رکھی کہاں جائےگی؟ باس کو غبن کا یقین تھا۔ اس پستول نکال کر گونگے بہرے اکاﺅنٹنٹ کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ ترجمان سے کہا اسے بتائے کہ اگر اس نے سچ نہ بتایا تو گولی مار دونگا۔ ترجمان نے یہ سب اکاﺅنٹنٹ کے ”نظر گزار“ کر دیا۔ اس نے اشاروں سے بتا دیا کہ رقم کہاں ہے۔ ترجمان نے باس کو بتایا جناب یہ کہہ رہا ہے باس پاگل، دھوکے باز اور فراڈیا ہے۔ اسکے پاس پستول جعلی اور خالی ہے اور اسے چلانا بھی نہیں آتا۔
ہماری پولیس نے جس گونگے اور بہرے کو پکڑا ہے اس سے تفتیش شاید ایسے نہ ہو۔ سنا ہے کہ بارود بردار شخص کو گرفتار کر نیوالی ٹیم کو افسروں نے مبارک باد دی ہے کہ اس نے گونگے اور بہرے ہی کو پکڑا اگر یہ اندھا بھی ہوتا تو تفتیش میں مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں۔
....٭....٭....٭....٭....
”ہم شریف کیا ہوئے‘ دنیا بدمعاش ہوگئی“۔ متحدہ رکن محمدعلی راشد کا ڈائیلاگ‘ قائمہ کمیٹی میں قہقہے۔
مائی لارڈ! پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ“ اقبال جرم سے کئی معاملات سے پردہ اٹھ رہا ہے اور یقیناً اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے۔ رہی بات انکے شریف ہونے کی تو اللہ بھلا کرے اس شریف کاجس کی مرلی نے ایسوں کو شریف بنا دیا اور تگنی کا ناچ بھی نچا دیا۔ لگتا ہے محمدعلی راشد انڈین فلموں کے شوقین ہیںاس لئے انہیں بھارتی فلموں کے ڈائیلاگ ازبر ہیں۔ محمدعلی صاحب بھارتی اداکاروں کے ڈائیلاگ کے بجائے پاکستانی اداکار محمدعلی کے ڈائیلاگ بولتے تو انکی شرافت کی زبان میں شریفانہ بیان ہوتا۔ تاہم یہ مرلی کا کمال ہے کہ بدلے بدلے سے حضور نظر آتے ہیں۔ اس مرلی کے کون صدقے واری نہ جائے جس نے موکھلی کا کام کر دکھایا۔ اب ہر تیسرا رکن کہہ رہا ہے ہم ایسے تھے‘ انکے اصل لیڈر تو اب بھی بوریوں کی تڑی لگاتے ہیں۔ ٹانگوں میں دم نہیں‘ چلے ہیں لنکا ڈھانے۔
٭....٭....٭....٭
دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس مچھروں سے ڈرنے لگے۔
بل گیٹس کا کہنا ہے کہ وہ اتنا شارک مچھلیوں سے نہیں ڈرتے جتنا انہیں مچھروں سے خوف آتا ہے۔ بل گیٹس نے شاید کہیں سے نمرود کا قصہ سن لیا ہوگا جس کی ناک میں ایک گھس بیٹھیا مچھر گھس بیٹھا تھا اور اسکی یہ حالت کردی تھی کہ صبح گیا یا شام گیا‘ سکون کیلئے اپنی چھترول بھی کراتا تھا۔بل گیٹس شارک مچھلی سے خوف نہیں کھاتے کیونکہ اسکے ساتھ ایسا کوئی خوفناک واقعہ منسوب نہیں ۔ویسے آپس کی بات ہے‘ کیا بل گیٹس چوہے‘ لال بیگ‘ سانپ یا بچھو سے پیار کرتے ہیں۔ بل گیٹس کو مچھر سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ وقت کے نمرود نہیں ہیں ‘ وہ ایک مہربان شخص ہیں جن کے دیئے ہوئے عطیے سے کئی ٹرسٹ چلتے ہیں۔ بل گیٹس نے کمپیوٹر کی کئی ونڈوز ایجاد کی ہیں۔گیٹ اس لئے نہیں بنائے کہ انکے نام میں کئی گیٹس موجود ہیں۔ انہیں مچھر سے خوف کھانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اگر وہ پھر بھی خوفزدہ ہیں تو وہ اپنی ”ونڈو“بند کرلیں جسکے وہ بانی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Back to Top