Friday 14 October 2016

Tamasha A ihle karam dekte hai written by Sardar mohammad aslam skhera


تماشہ اے اہل کرم دیکھتے ہیں"

آج کل بھارت کے وزیراعظم مسٹر مودی کے تین صوبوں میں الیکشن ہونیوالے اسکی وجہ سے وہ آر ایس ایس کی پالیسی پر شدت سے عمل پیرا ہیں تاکہ ہندو ازم کو جگا کر اکثریت ووٹ حاصل کر سکیں، دوسرے کشمیر میں نوجوان کشمیری اپنی آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جن کو بھارتی 7 لاکھ فوج کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ 110 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں گولیوں کا نشانہ بنے ہیں اور ہزاروں کی آنکھوں میں پیلٹ مار کر اندھا کیا گیا ہے۔ بربریت کی انتہا بھارتی فوج نے نازل کی ہوئی ہے۔ مہینوں سے کرفیو سری نگر میں چل رہا ہے۔ ڈل لیک میں کنول کے پھول لہرایا کرتے تھے اب کشمیریوں کے خون سے لال آنسو بہا رہی ہے۔ بین الاقوامی ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔ یونائیٹڈ نیشن یا اسکا کوئی Affective ممبر بھی بھارت کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہا۔ میاں محمد نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھارت کی بربریت کو اجاگر ضرور کیا اور مؤثر انداز سے کیا لیکن کسی بھی دوسرے ملک نے اسکی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ امریکہ بدستور پاکستان کو restrain کا کہہ رہا ہے لیکن بھارتی جارحیت پر اسکی زبان گنگ ہے۔ اسلامی ممالک بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ غیر اسلامی علاقہ کا مسئلہ ہو تو فوراًایسٹ تیمور کی طرح ریفرنڈم کرا کر آزاد ملک بنا دیا جاتا ہے لیکن کشمیر پورا آگ میں جل رہا ہے مسلسل کرفیو کی وجہ سے ادویات اور خوراک کی دستیابی میں بھی دشوار ہے لیکن U N O حرکت میں آنے کا نام نہیں لیتی۔ بے حسی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ بین الاقوامی برادری کر رہی ہے اگر یہی حال رہے گا تویو این او بھی لیگ آف نیشن کی طرح ختم ہو جائیگی۔ مودی اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور بے ہوشی میں غیر دانشمندانہ اقدام بھی کر سکتے ہیں۔ اوڑی کا واقعہ اور من گھڑت سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ دنیا نے رد کر دیا ہے اور ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔ مودی کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے کمانڈر کا کہنا کہ وہ جنگ کیلئے تیار نہیں ہے پاکستان کی آنکھ میں دھول ڈھالنے کے مترادف ہے۔
ایسٹ پاکستان Debacle کے وقت اندرا گاندھی نے بھی را کے انچارج اور بھارتی فوج کے انچارج کو بلا کر بھی یہی کہا تھا کہ وہ ایسٹ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتی ہیں۔ جس پر دونوں نے جواب دیا تھا کہ اس وقت وہ تیار نہیں ہے تو اندرا گاندھی نے انکو جواب دیا تھا کہ تیاری کرو حملہ کرنا ہے۔ چنانچہ را کے انچارج نے مکتی باہنی تشکیل دی۔تاج الدین اور انکے رفقا کی ایگزائل گورنمنٹ ترتیب دی گئی۔ بنگال یونیورسٹی کے بھگوڑے طالب علموں کو بھی مکتی باہنی کیلئے تیار کیا گیا۔ اس مکتی باہنی نے ایسٹ پاکستان میں قتل عام شروع کیا اور تخریب کاری پورے ایسٹ پاکستان میں رائج کی گئی۔ مکتی باہنی ایسٹ پاکستان میں قتل عام میں مصروف ہوئی اور بھارتی فوج کو جہاں پاکستانی فوج نہ تھی ایسی جگہیں بتاکر ڈھاکہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ جتنی تباہی مکتی باہنی نے ایسٹ پاکستان میں کی اس سے عشر عشیر میں بھی پاکستانی فوج نے نہیں کی لیکن بھارت کا یہ پروپیگنڈا نہایت مؤثر تھا نتیجہ یہ نکلا بقول بریگیڈئر سعد اللہ پاکستان بغیر لڑے جنگ ہار گیا۔ اب واہگہ بارڈر اور اٹاری کے گاؤں بھارت نے خالی کرا لئے ہیں۔ راجھستان کے 25 گاؤں جو پاکستانی سرحد کے قریب ہیں وہ بھی خالی کروا لئے گئے ہیں۔ کچھ سیاستدان اور سب سے بڑھ کر براہمداغ بگٹی کی خدمات بھارت نے حاصل کر لی ہیں جو پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔
بھارت کے سابق پرائم منسٹر شاستری نے کہا تھا کہ ہم اپنی مرضی کے محاذ کھولیں گے جس کا پاکستان میں مذاق اڑایا گیا لیکن اس شاستری نے شاستر دیکھ کر 6 ستمبرکی تاریخ مقررکی اور لاہور پر حملہ کر دیا۔ جمخانہ میں ڈنر کھانے کی خواہش کو پاکستانی فوج اور پاکستان کے عوام نے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر خاک میں ملا دیا۔ اب مودی گو اپنے ملکی حالات کشمیرکا مسئلہ پنجاب میں سکھوں کی آزادی اور چھ اور ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں سے تنگ آکر اور تین صوبوں میں نئے الیکشن ہارنے سے بچنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مہم جوئی کر سکتا ہے اس لئے ہمیں ایٹمی طاقت ہیں کے زعم پر ہی صرف اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
ملک اور قوم کو بھی تیار کرنا چاہئے اور فوج اور ائیرفورس بھی ہر محاذ پر لڑنے کیلئے تیار رہے۔
امریکہ ہمارے حق میں نہیں ہے۔ سی پیک اور گوادر پر چین روس کی رسائی انکو نہیں بھاتی۔ ہم پر پابندی اور پھر ڈومور کے انکے بھاشن ہمارے کام میں خراش ڈال رہے ہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ خواب دیکھنا اور اس کو حقیقت میں تبدیل کرنا دو مختلف باتیں ہیں لیکن اس وقت ملک میں یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان کا لاہور کا جلسہ انکی امید سے بہت زیادہ کامیاب ہوا لیکن ان گلہ تھا کہ علامہ طاہرالقادری‘ پیپلزپارٹی نے انکا ساتھ نہیں دیا۔ مسلم لیگ سے تو انکو عناد ہے ہی، پیپلز پارٹی اور طاہرالقادری سے بھی تو تو میں میں ہو گئی۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں نہ جانے کا عہد کر لیا۔ اسمبلی میں مشاہداللہ مسلم لیگ کے M.N.A نے اعتزاز احسن اور خورشید شاہ‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ زرداری صاحب اور بھٹو مرحوم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے ہیں۔ متحدہ اجلاس انتشار بے پناہ کا منظرپیش کرنے لگا جو اجلاس قوم کی یکجہتی کیلئے بلایا گیا اس میں یکجہتی کے بجائے انتشار، انتشار نظر آنے لگا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مودی صاحب نے کشمیر ایشو کو گول کرانے کیلئے یہ ڈرامہ پاکستانی سیاستدانوں سے کرایا۔ بہرحال جو کچھ ہوا ملکی حالات کے مطابق نامناسب تھا۔
اس وقت پاکستان کی ہرپارٹی اپنا پرچم اٹھائے اپنے اپنے وزیراعظم بنانے کیلئے ہما کی تلاش میں ہے کہ وہ کس کے سر پر بیٹھتا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وقت پر دوسری پارٹیاں بے وفائی کرتی ہیں اس لئے وہ سولو فلائٹ کرینگے کیونکہ بھٹو مرحوم نے بھی سولو فلائٹ کرکے حکومت حاصل کی تھی۔ اس وقت بین الاقوامی حالات کشیدہ ہیں۔ کشمیرکی آزادی کی تحریک آخری مراحل میں ہے۔ مودی صاحب نرغے میں ہیں کبھی سرجیکل سٹرائیک کا ذکرکرتے ہیں کبھی سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرکے پاکستانی دریاؤں کے پانیوں پر قبضہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی میاں نواز شریف سے محبت کی پینگیں بڑھانے کیلئے غربت دونوں ملکوں میں مٹانے کا منشور لیکر دونوں ملکوں کو مقابلہ کی دعوت دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے ٹھیک کہا ہے کھیتوں میں جیپ ٹینک کھڑے ہوں، بارود سے بھرے ٹرک تیار ہوں تو غربت دور نہیں ہوتی۔مودی صاحب سے میری گزارش ہو گی کہ پاکستان نے ایٹمی کھلونے الماری کی زینت بنانے کیلئے نہیں رکھے۔انکا استعمال ہوا توکوئی دونوں ملکوں میں نہیں بچے گا کہ فاتح کون ہے اور مفتوح کون ہے‘ ہوش کے ناخن لو ، جیو اور جینے دو۔
میاں نواز شریف سے میں عرض کروں گا سیاسی انتشار پیدا کرنے کی بجائے حکومتی انچارج کی حیثیت سے اپوزیشن پارٹیوں کو اعتماد میں لو اور وقت کی نزاکت کا احساس انکو دلاؤ اور نئی نئی مہم جوئی سے ان کو اجتناب کی طرف مائل کرو۔ کچھ دوکچھ لوکے اصول پر عمل پیرا ہوکر ملک کی سلامتی کیلئے قومی یکجہتی پر عمل پیرا ہوں۔ خادم اعلیٰ پنجاب کو بتا دو کہ لاٹھی والوں سے الجھنے کا نتیجہ بھی پہلے دیکھا ہوا ہے اس کو دعوت نہ دو اور مل جل کر پاکستان کی بقا کو منجھدار سے پار لگاؤ۔ …
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشہ اے اہل کرم دیکھتے ہیں

No comments:

Post a Comment

Back to Top